20 مُحَرَّم / July 15

سہیل عباس: پاکستان ہاکی کے عظیم ہیرو کی شاندار داستان

تحریر: خرم ابن شبیر

تاریخ کے اوراق میں ایسے لوگ بھی ملتے ہیں جو اپنی محنت، جذبے، اور لگن کے ذریعے نہ صرف اپنا مقام بناتے ہیں بلکہ اپنی قوم کا نام بھی روشن کرتے ہیں۔ سہیل عباس بھی انہی روشن ستاروں میں سے ایک ہیں جنہوں نے دنیا کو دکھا دیا کہ کھیل کے میدان میں پاکستانی عزم اور صلاحیتوں کا کوئی مقابلہ نہیں۔

ابتدائی زندگی: ایک خواب کا آغاز

9 جون 1975ء کو کراچی کے "ہولی فیملی ہسپتال” میں پیدا ہونے والے سہیل عباس کا تعلق ایک متوسط گھرانے سے تھا۔ ان کے والد افتخار حسین کرکٹر تھے، مگر سہیل عباس نے ہاکی کو اپنی منزل بنایا۔ حبیب پبلک اسکول، جو ہاکی کے لیے مشہور ہے، ان کی ابتدائی تربیت کا مرکز بنا۔ یہاں کھیل کو بطور مضمون پڑھایا جاتا تھا، اور یہی تربیت سہیل کے لیے ایک مضبوط بنیاد ثابت ہوئی۔ ان کے ماموں صفدر عباس، جنہوں نے 1974ء کے ہاکی ورلڈ کپ میں شرکت کی، ان کے اولین متاثرین میں سے تھے۔

ہاکی کے سفر کا آغاز

سہیل عباس کا قومی ہاکی ٹیم میں داخلہ کسی روایتی جونیئر سفر کا نتیجہ نہیں تھا۔ 1998ء میں، وہ براہِ راست سینئر ٹیم کا حصہ بنے اور نیدرلینڈ میں ہونے والے ہاکی ورلڈ کپ میں اپنی شاندار کارکردگی کا آغاز کیا۔ ان کی مہارت، خاص طور پر "ڈریگ فلک” میں، انہیں دنیا بھر میں مشہور کر گئی۔

ڈریگ فلک، جو ایک پیچیدہ اور تکنیکی مہارت ہے، سہیل عباس کے کھیل کا مرکز تھا۔ ان کی حیرت انگیز رفتار اور درستگی نے نہ صرف شائقین بلکہ ان کے مخالفین کو بھی حیران کر دیا۔ ان کا ایک ایسا گول، جس میں گیند گول پوسٹ کے نیٹ سے باہر نکل گئی، آج بھی یادوں کا حصہ ہے۔

ریکارڈز کی دنیا میں بے تاج بادشاہ

ہاکی کے میدان میں سہیل عباس کا سب سے بڑا کارنامہ عالمی ریکارڈ توڑنا تھا۔ 8 اکتوبر 2004ء کو، انہوں نے 268 گول کر کے پال لیجنز کا 25 سال پرانا ریکارڈ توڑ دیا۔ یہ کارنامہ بھارت کے خلاف میچ میں انجام پایا، جو ان کی زندگی کا یادگار لمحہ بن گیا۔ اس کے بعد انہوں نے اپنے کیریئر میں مجموعی طور پر 348 گول کیے، جو ایک ناقابلِ تسخیر ریکارڈ ہے۔

ان کی یہ کامیابی کسی معجزے سے کم نہ تھی، کیونکہ اس وقت پاکستان میں ہاکی کا انفراسٹرکچر زوال پذیر تھا۔ جہاں ہالینڈ میں سینکڑوں آسٹروٹرف کے میدان موجود تھے، پاکستان میں صرف چند گنے چنے میدان دستیاب تھے۔

قومی ٹیم میں شاندار کردار

سہیل عباس نے نہ صرف گولز کا انبار لگایا بلکہ قومی ٹیم کی قیادت بھی کی۔ 2012ء کے لندن اولمپکس میں، انہوں نے پاکستان ہاکی ٹیم کی کپتانی کی اور پاکستانی دستے کا پرچم اٹھانے کا اعزاز حاصل کیا۔ ان کی قیادت میں ٹیم نے ساتویں پوزیشن حاصل کی، جو ان کے شاندار کیریئر کا اختتام ثابت ہوئی۔

تاریخی ورثہ اور سہیل عباس کی شخصیت

سہیل عباس کے کھیل کی عظمت صرف ان کے ریکارڈز تک محدود نہیں بلکہ ان کی شخصیت بھی متاثر کن ہے۔ وہ ایک سادہ، مگر بے باک انسان ہیں جو ہاکی کی زوال پذیر حالت پر کھل کر بات کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان ہاکی کے زوال کی بڑی وجہ ایماندار نظام کی کمی اور جدید تکنیکوں سے ہم آہنگ نہ ہونا ہے۔

سہیل عباس: ایک ہیرو، ایک داستان

سہیل عباس کا ذکر اس وقت ادھورا رہتا ہے جب ہم ان کے بھارتی کھلاڑیوں کے خلاف کھیلے گئے میچز کا تذکرہ نہ کریں۔ ان کے گولز نے بھارت کے خلاف کئی بار پاکستان کو فتح دلائی، اور وہ اپنے مداحوں کے دلوں میں ایک ہیرو کے طور پر بس گئے۔ ان کے گولز کی رفتار اور انداز کو دیکھ کر عالمی کمنٹیٹرز بھی انہیں "ڈریگ فلک کنگ” کہنے پر مجبور ہو گئے۔

قوم کے لیے ایک مثال

سہیل عباس کی زندگی ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ حالات چاہے کتنے ہی خراب کیوں نہ ہوں، عزم اور محنت کے ذریعے ہر ناممکن کو ممکن بنایا جا سکتا ہے۔ وہ پاکستان ہاکی کا ایک ایسا ستارہ ہیں جس کی روشنی ہمیشہ قائم رہے گی۔

پاکستان ہاکی فیڈریشن کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنے اس عظیم کھلاڑی کو پرائڈ آف پرفارمنس جیسا اعزاز دے، تاکہ آنے والی نسلوں کو یہ معلوم ہو کہ پاکستان کے پاس سہیل عباس جیسے گوہر نایاب موجود ہیں۔

 

Tags