98
ڈرنے کی ضرورت نہیں، ریفرنس آنے پر فیصلہ کریں گے: جسٹس منصور علی شاہ
سپریم کورٹ کے جج جسٹس منصور علی شاہ کا غیر رسمی گفتگو میں اہم انکشافات اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان کے سینئر جج جسٹس منصور علی شاہ نے ایک غیر رسمی گفتگو میں عدلیہ سے متعلق سوالات کے جوابات دیے اور عدالتی کارکردگی پر روشنی ڈالی۔ سپریم کورٹ میں تقریبِ حلف برداری کے بعد…
سپریم کورٹ کے جج جسٹس منصور علی شاہ کا غیر رسمی گفتگو میں اہم انکشافات
اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان کے سینئر جج جسٹس منصور علی شاہ نے ایک غیر رسمی گفتگو میں عدلیہ سے متعلق سوالات کے جوابات دیے اور عدالتی کارکردگی پر روشنی ڈالی۔
سپریم کورٹ میں تقریبِ حلف برداری کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ تمام ججز کے ساتھ ملاقات ہوتی ہے اور وہ اکٹھے چائے بھی پیتے ہیں۔ ان کا یہ بیان عدلیہ کے اندرونی ماحول اور ججز کے آپسی تعلقات کے حوالے سے دلچسپی رکھتا ہے۔
عدلیہ پر تنقید کا جواب
ایک صحافی نے سوال کیا کہ بعض حلقے دعویٰ کرتے ہیں کہ ججز کام نہیں کرتے، جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے عدالتی فیصلوں کی شفافیت اور کارکردگی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ مقدمات نمٹانے کی شرح اور عدالت کے فیصلے سب کے سامنے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ "کس کے کتنے فیصلے قانون کی کتابوں میں شائع ہوئے، سب کچھ سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر موجود ہے۔”
ریفرنس کے سوال پر ردِ عمل
ایک اور سوال میں صحافی نے پوچھا کہ کیا ان کے خلاف کوئی ریفرنس دائر ہونے والا ہے؟ جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے پُراعتماد انداز میں جواب دیا: "ریفرنس جب آئے گا تب دیکھا جائے گا، کچھ غلط کیا ہی نہیں تو ریفرنس کا ڈر کیوں ہو؟ اللّٰہ مالک ہے۔” ان کا یہ جواب اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ وہ کسی بھی قانونی چیلنج کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہیں اور خود کو بے قصور سمجھتے ہیں۔
’کمرے میں موجود ہاتھی‘ کا ذکر
اپنی گفتگو کے دوران جسٹس منصور علی شاہ نے ایک دلچسپ جملہ کہا: "کسی سے کوئی ذاتی عناد یا اختلاف نہیں، کمرے میں موجود ہاتھی کسی کو نظر نہ آئے تو کیا کہہ سکتے ہیں۔” یہ جملہ کئی مفاہیم رکھتا ہے اور بظاہر عدلیہ میں موجود کسی بڑے مسئلے کی طرف اشارہ کرتا ہے جسے نظرانداز کیا جا رہا ہو۔
جسٹس منصور علی شاہ کا یہ بیان عدلیہ، اس کے فیصلوں اور اس سے متعلقہ تنازعات پر روشنی ڈالتا ہے۔ ان کے جواب نے واضح کر دیا کہ وہ عدالتی کارکردگی پر ہونے والی تنقید سے بے خوف ہیں اور اپنی شفافیت پر مکمل اعتماد رکھتے ہیں۔