98
ریاستی اداروں کو لاپتہ افراد کی تلاش میں پیشرفت یقینی بنانے کی ہدایت
سندھ ہائی کورٹ کا لاپتہ افراد کی بازیابی یقینی بنانے کا حکم، حکومتی کارکردگی پر اظہارِ برہمی سندھ ہائی کورٹ میں لاپتہ افراد کی بازیابی سے متعلق درخواستوں کی سماعت کے دوران عدالت نے حکام کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے واضح ہدایت دی کہ شہریوں کی گمشدگی کے معاملات پر پیش رفت یقینی…
سندھ ہائی کورٹ کا لاپتہ افراد کی بازیابی یقینی بنانے کا حکم، حکومتی کارکردگی پر اظہارِ برہمی
سندھ ہائی کورٹ میں لاپتہ افراد کی بازیابی سے متعلق درخواستوں کی سماعت کے دوران عدالت نے حکام کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے واضح ہدایت دی کہ شہریوں کی گمشدگی کے معاملات پر پیش رفت یقینی بنائی جائے۔
دوران سماعت جسٹس ظفر احمد راجپوت اور دیگر معزز ججز نے سرکاری وکیل اور محکمۂ داخلہ کے فوکل پرسن سے سرجانی ٹاؤن سے لاپتہ مظفر علی کے کیس میں پیش رفت پر سوالات کیے۔ فوکل پرسن نے بتایا کہ اہلخانہ کی مالی معاونت کے لیے سمری منظور ہو چکی ہے، تاہم مزید وقت درکار ہے۔
عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ "دو ماہ سے مہلت مانگ رہے ہیں، ادارے عوام کی سہولت کے لیے ہوتے ہیں یا محض کاغذی کارروائی کے لیے؟” عدالت نے خبردار کیا کہ اگر آئندہ پندرہ دن میں پیش رفت نہ ہوئی تو اکاؤنٹنٹ جنرل سندھ کو طلب کیا جائے گا۔
مزید سماعت میں سچل سے لاپتہ فدا حسین، ظہیر اور عباس کے کیسز پر تفتیشی افسر سے بازپرس کی گئی۔ عدالت نے سوال اٹھایا کہ نہ افراد کا پتہ چل سکا، نہ ہی گاڑی کی معلومات حاصل ہوئیں، اور نہ ہی متاثرہ خاندان سے رابطہ کیا گیا۔ عدالت نے فوری طور پر درخواست گزار سے رابطہ کر کے رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت دی۔
اسی طرح شہری عارف، بشیر، شوکت اور دیگر لاپتہ افراد کے کیسز میں بھی عدالت نے تفتیشی اداروں سے پیش رفت رپورٹ طلب کر لی ہے۔
عدالت نے واضح کیا کہ لاپتہ افراد کا معاملہ انسانی حقوق کا مسئلہ ہے اور ریاست کی ذمہ داری ہے کہ شہریوں کو تحفظ فراہم کرے اور ان کے اہلخانہ کو انصاف دلایا جائے۔