06 جُمادى الأولى / November 09

جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے سوال اٹھایا ہے کہ کیا حکومت کے پاس اختیار ہے کہ وہ اپنے فیصلے خود کر سکے؟

قومی اسمبلی میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ آج سیاسی لوگوں کی اہمیت ختم کی جا رہی ہے، سیاستدانوں کو بااختیار بناؤ اور معاملات سیاستدانوں کے حوالے کریں۔

انہوں نے کہا کہ سینئر اور سنجیدہ سیاسی قیادت کو سائیڈ لائن کیا جا رہا ہے، جذباتی لوگوں کو آگے لانے سے ریاست کا نقصان ہوتا ہے، ہمیں سیاستدانوں کو بااختیار بنانا ہو گا، سیاستدانوں کے معاملات سیاستدانوں کے حوالے کہے جائیں ورنہ مسئلے حل نہیں ہوں گے، اپوزیشن میں ضرور ہیں لیکن وطن کو ضرورت پڑی تو ہر طرح کی قربانی کے لیے تیار ہیں۔

 مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں ایک ہی دن مسلح افواج اور لوگوں پر حملے ہوئے، ہم طاقت کے ساتھ نمٹنے اور آخری حد تک جانے کے لیے تیار ہیں۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ بلوچستان کے لوگوں سے بات چیت کریں، ریاست ناکام ہو جاتی ہے تو وہاں ہم جاتے ہیں اور صورتِ حال کو قابو کرتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ مسنگ پرسنز ایک بڑا اور انتہائی اہم مسئلہ ہے، ان کے پیارے سالوں سے لاپتہ ہیں، جو بھی مسنگ ہے حکومت کی ذمے داری ہے ان کے خاندان کو بتائیں کہ ان کا بچہ کدھر ہے۔

جے یو آئی کے سربراہ نے کہا کہ ہم لوگوں کو روزگار نہیں دے پا رہے، ایک طرف بے روزگاری ہے، دوسری طرف محکموں کو ختم کیا جا رہا ہے، پی ڈبلیو ڈی کو ختم کیا جا رہا ہے، یوٹیلیٹی اسٹورز کو بند کیا جا رہا ہے، معاملات کو خراب نہ کیجیے، آپ کی طرف سے واضح ہدایات جانی چاہئیں۔

مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا ہے کہ اختر مینگل نے جس احساس کے تحت استعفیٰ دیا وہ احساس یہاں بہت ساری پارٹیوں کا ہے، اقتدار میں لائے گئے لوگوں کا اس کے علاوہ کوئی کام نہیں کہ جب ان کے آقا چاہیں یہ ان کے لیے قانون سازی کریں۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان اور کے پی میں صورتِ حال کو واپس لایا جاسکتا ہے، طاقت کے استعمال کی باتوں سے حالات بگڑتے ہیں، میں الیکشن سے پہلے افغانستان گیا جہاں سرحدی اور دیگر تمام امور پر کامیاب مذاکرات کیے۔