98
جامعہ ہائی ٹیک ٹیکسلا میں روبوٹکس میلہ: نوجوان ٹیلنٹ اور جدید ٹیکنالوجی کا مظاہرہ
جامعہ ہائی ٹیک ٹیکسلا میں روبوٹکس میلہ: نوجوان ٹیلنٹ اور جدید ٹیکنالوجی کا مظاہرہ ٹیکسلا — جامعہ ہائی ٹیک ٹیکسلا کی روبوٹکس سوسائٹی کے زیرِ اہتمام آٹھواں سالانہ ٹیکنالوجی میلہ "روبو فیسٹا" 17 سے 19 دسمبر تک منعقد ہوا، جس میں ملک بھر سے طلبہ و طالبات، نوجوان انجینئرز اور ٹیکنالوجی کے شوقین افراد نے…
جامعہ ہائی ٹیک ٹیکسلا میں روبوٹکس میلہ: نوجوان ٹیلنٹ اور جدید ٹیکنالوجی کا مظاہرہ
ٹیکسلا — جامعہ ہائی ٹیک ٹیکسلا کی روبوٹکس سوسائٹی کے زیرِ اہتمام آٹھواں سالانہ ٹیکنالوجی میلہ "روبو فیسٹا” 17 سے 19 دسمبر تک منعقد ہوا، جس میں ملک بھر سے طلبہ و طالبات، نوجوان انجینئرز اور ٹیکنالوجی کے شوقین افراد نے شرکت کی۔
تین روزہ اس ایونٹ کے دوران یونیورسٹی کیمپس جدید ٹیکنالوجی، اختراعات اور تخلیقی صلاحیتوں کا مرکز بنا رہا۔ منتظمین کے مطابق اس سال روبو فیسٹا میں پاکستان کے مختلف شہروں سے 500 سے زائد ٹیمیں اور 2000 سے زیادہ شرکاء شریک ہوئے، جنہوں نے روبوٹکس، مصنوعی ذہانت اور آٹومیشن کے شعبوں میں اپنے منصوبے پیش کیے۔
ایونٹ میں روبو وارز، تیز رفتار ریموٹ کنٹرول کار ریسنگ، مصنوعی ذہانت کے عملی مظاہرے اور جدید آٹومیشن چیلنجز جیسے مقابلے شامل تھے، جن میں نوجوانوں نے عملی حل اور نئے خیالات پیش کر کے حاضرین کو متاثر کیا۔
جامعہ کے وائس چانسلر ڈاکٹر کامران آفاق اور انتظامیہ کی نمائندگی کرتے ہوئے ماحد شاہ کا کہنا تھا کہ روبو فیسٹا ہر سال منعقد کیا جاتا ہے تاکہ ملک بھر کے باصلاحیت طلبہ کو اپنی صلاحیتوں کے اظہار کا موقع فراہم کیا جا سکے۔ ان کے مطابق شرکاء کے لیے رہائش کے انتظامات کے ساتھ ساتھ نمایاں کارکردگی دکھانے والی ٹیموں کو بھاری انعامی رقم سے بھی نوازا گیا۔
ایونٹ کا اختتام ایک اعزازی تقریب پر ہوا، جس میں نمایاں منصوبے پیش کرنے والی ٹیموں کی حوصلہ افزائی کی گئی۔ منتظمین کا کہنا تھا کہ روبو فیسٹا نوجوانوں کے لیے نہ صرف سیکھنے اور مقابلے کا موقع ہے بلکہ یہ پاکستان میں روبوٹکس اور جدید ٹیکنالوجی کے فروغ میں بھی اہم کردار ادا کر رہا ہے۔
منتظمین کے مطابق روبو فیسٹا نے یہ ثابت کیا کہ یہ محض ایک ٹیکنالوجی میلہ نہیں بلکہ نوجوان ٹیلنٹ، جدید خیالات اور پاکستان کے مستقبل کی ٹیکنالوجی کا ایک مشترکہ جشن ہے، جس نے سوشل میڈیا کے ذریعے ہزاروں افراد تک اپنی رسائی بھی حاصل کی۔








