98
مولانا فضل الرحمٰن کا توہین رسالت مقدمات پر کمیشن کے قیام کی مخالفت کا دوٹوک مؤقف
مولانا فضل الرحمٰن کا توہین رسالت مقدمات پر کمیشن کے قیام کی مخالفت کا دوٹوک مؤقف اسلام آباد:جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے توہین رسالت اور توہین مذہب کے مقدمات پر انکوائری کمیشن کے قیام کی تجویز کو ملک میں نیا انتشار پیدا کرنے کی سازش قرار دیا ہے۔ ان کا…
مولانا فضل الرحمٰن کا توہین رسالت مقدمات پر کمیشن کے قیام کی مخالفت کا دوٹوک مؤقف
اسلام آباد:
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے توہین رسالت اور توہین مذہب کے مقدمات پر انکوائری کمیشن کے قیام کی تجویز کو ملک میں نیا انتشار پیدا کرنے کی سازش قرار دیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ جب عدالتوں نے مقدس ہستیوں کی گستاخی میں ملوث افراد کے خلاف فیصلے سنا دیئے ہیں اور مجرموں کو سزائیں دی جا چکی ہیں تو پھر کمیشن بنانے کی کوئی گنجائش نہیں بنتی۔
مولانا فضل الرحمٰن نے اس حوالے سے کہا کہ زیر حراست گستاخوں کے رشتہ داروں کی جانب سے اسلام آباد ہائیکورٹ میں کمیشن کے قیام کی درخواست دینا عدالتی فیصلوں پر سوال اٹھانے کے مترادف ہے۔ ان کے مطابق اس وقت ملک بھر میں 450 کے قریب مقدس ہستیوں کی توہین کے مقدمات زیر سماعت ہیں جن میں سے 40 پر فیصلے سنائے جا چکے ہیں۔ ان میں سے 38 کو سزائے موت اور دو کو عمر قید کی سزائیں دی گئی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ مقدمات مختلف عدالتوں اور مختلف جج صاحبان کے سامنے چل رہے ہیں جو آزاد اور خود مختار ہیں۔ اگر ملزمان واقعی بے گناہ ہیں تو وہ ٹرائل کورٹس میں اپنی بے گناہی ثابت کریں۔ مولانا کا کہنا تھا کہ کمیشن کے چند ارکان کو تو مینج کرنا آسان ہے لیکن ملک بھر کی عدالتوں کے درجنوں جج صاحبان کو مینج کرنا ممکن نہیں۔
انہوں نے کہا کہ گستاخوں کے سہولت کار گزشتہ ایک سال سے یہ پراپیگنڈہ کر رہے ہیں کہ گستاخوں کو ٹریپ کر کے ان پر مقدمات بنوائے گئے ہیں، مگر آج تک کوئی ایک بھی ٹھوس ثبوت عدالت کے سامنے پیش نہیں کیا جا سکا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ میں اس حوالے سے دائر پٹیشن کی اب تک کی سماعت میں بھی پٹیشنرز اپنے موقف کو ثابت نہیں کر سکے۔
مولانا فضل الرحمٰن نے واضح کیا کہ اگر دفاع میں کوئی ثبوت ہیں تو انکوائری کمیشن کے بجائے متعلقہ ٹرائل کورٹس میں پیش کئے جائیں، کیونکہ انصاف کی شفافیت ٹرائل کورٹ کی سطح پر ہی ممکن ہے۔