98
تحریر: خرم ابن شبیر
ہم ایک ایسے دور میں سانس لے رہے ہیں جہاں سچ بولنا بھی ایک پارٹی بیانیہ سمجھا جاتا ہے، اور سوال اٹھانا گویا کسی خاص سیاسی جماعت کی مخالفت قرار دے دیا جاتا ہے۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہماری قوم کی سوچ سیاسی جماعتوں کے گرد اس حد تک گھومنے لگی ہے کہ اب اگر کوئی فرد حق بات بھی کرے، تو اسے کسی نہ کسی سیاسی صف میں کھڑا کر دیا جاتا ہے۔
جب میں ن لیگ کی کسی پالیسی یا اقدام پر سوال اٹھاتا ہوں تو اکثر لوگ فوراً مجھے پی ٹی آئی کا حامی سمجھ لیتے ہیں۔
جب میں پی ٹی آئی کی کسی کمزوری کی نشاندہی کرتا ہوں، تو بعض دوست مجھے ن لیگ کا حمایتی قرار دیتے ہیں۔
اور جب میں دیگر جماعتوں کی کوتاہیوں پر قلم اٹھاتا ہوں تو مجھے کسی نہ کسی "ایجنڈے” کا حصہ کہہ دیا جاتا ہے۔
حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ یہاں حب الوطنی اور شعور کی بات کرنا بھی تعصب کی عینک سے دیکھا جاتا ہے۔
میں یہ بات آج پوری وضاحت کے ساتھ کہنا چاہتا ہوں کہ
میں نہ ن لیگ کا کارکن ہوں، نہ پی ٹی آئی کا حمایتی، نہ کسی اور جماعت کا ترجمان۔
میری وابستگی صرف ایک ہے — پاکستان سے۔
میری سوچ کا مرکز و محور صرف پاکستان ہے۔
میں جو بھی کہتا ہوں، جو بھی لکھتا ہوں، جو بھی سوال اٹھاتا ہوں — وہ کسی سیاسی مفاد یا ذاتی ترجیح کی بنیاد پر نہیں ہوتا، بلکہ وطنِ عزیز کی فلاح، بہتری، ترقی اور انصاف کے لیے ہوتا ہے۔
میں کسی سیاسی شخصیت کا اندھا مقلد نہیں۔
میں کسی بیانیے کا غلام نہیں۔
میں سوچتا ہوں، سوال کرتا ہوں، مشورہ دیتا ہوں، اور اصلاح کی امید رکھتا ہوں۔
اگر ہم بطور قوم ہر تنقید کو دشمنی، اور ہر اختلاف کو غداری سمجھنے لگے ہیں تو پھر ہم صرف جماعتی غلام بن کر رہ جائیں گے، قوم کبھی نہیں بن سکیں گے۔
سچ کہنا اگر جرم ہے، تو میں یہ جرم بار بار کروں گا۔
اگر پاکستان کی بہتری کے لیے آواز اٹھانا کسی کو گوارا نہیں،
تو میں یہ آواز بند نہیں کر سکتا۔
میں سمجھتا ہوں کہ
قومیں صرف نعروں سے نہیں بنتیں، اصولوں، انصاف اور سچائی سے بنتی ہیں۔
ہمیں اپنی سوچ سے پارٹی پرچموں کا رنگ اتارنا ہو گا۔
ہمیں ہر سچ بولنے والے کو فوراً کسی کیمپ میں ڈالنے کا رویہ ترک کرنا ہو گا۔
ملک کا مفاد کسی ایک جماعت کے ساتھ وابستہ نہیں،
بلکہ اجتماعی شعور اور اصول پسندی سے جڑا ہوتا ہے۔
میں ایک عام پاکستانی ہوں،
جس کے دل میں صرف پاکستان بستا ہے۔
جس کی زبان پر سچ ہے، اور جس کی نظر صرف قومی مفاد پر ہے۔
نہ میں بکتا ہوں، نہ میں جھکتا ہوں، نہ میں کسی سے ڈرتا ہوں —
کیونکہ میں حق کے ساتھ کھڑا ہوں۔
میری گزارش صرف اتنی ہے کہ
کسی کی بات سننے سے پہلے اُس کی نیت کو شک کے ترازو میں نہ تولا کریں۔
ممکن ہے وہ آپ کا مخالف نہ ہو — وہ صرف ایک باشعور پاکستانی ہو۔
آئیں! ہم مل کر سوچیں، سمجھیں، سیکھیں اور بہتری کی طرف بڑھیں —
بغیر تعصب، بغیر بغض، اور بغیر جھنڈوں کے — صرف پاکستان کے لیے۔
خرم ابن شبیر
(ایک غیر جانب دار، آزاد اور باشعور پاکستانی)