24 ذوالحجة / June 20

خیبر پختونخوا اسمبلی میں وزیر اعلیٰ کو اختیارات کی منتقلی کی منظوری، سینٹینسنگ کونسل پر کنٹرول مل گیا

پشاور:
خیبر پختونخوا اسمبلی نے ایک ترمیمی بل منظور کیا ہے جس کے تحت وزیر اعلیٰ کو بعض اہم اختیارات تفویض کر دیے گئے ہیں، جو پہلے صوبائی کابینہ کے پاس تھے۔ یہ قانون سازی سینٹینسنگ کونسل سے متعلق ہے، جس کا قیام اور نگرانی اب وزیر اعلیٰ کے دائرہ اختیار میں آ جائے گی۔

ترمیمی بل کی تفصیلات

صوبائی وزیر قانون آفتاب عالم آفریدی نے سزاؤں سے متعلق یہ ترمیمی بل ایوان میں پیش کیا، جسے بعد ازاں اسمبلی نے منظور کر لیا۔ البتہ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے رکن اسمبلی عدنان وزیر کی جانب سے پیش کی جانے والی ترامیم کو شامل نہیں کیا گیا۔

بل کے متن کے مطابق، ترمیم کے بعد کابینہ کو حاصل اختیارات وزیر اعلیٰ کو منتقل کر دیے گئے ہیں۔ اب وزیر اعلیٰ کو اختیار حاصل ہوگا کہ وہ سینٹینسنگ کونسل کے چیئرمین اور ممبران کا تقرر کر سکیں۔ ان میں سرکاری یا ریٹائرڈ سول ملازمین، جج، وکلا، پراسیکیوٹرز اور قانونی ماہرین شامل ہو سکتے ہیں۔

کونسل کے کردار اور دائرہ کار میں توسیع

بل کے مطابق، سینٹینسنگ کونسل کی تشکیل پانچ سے سات ارکان پر مشتمل ہو گی، اور اس کی ذمہ داری عدالتوں کی جانب سے سنائی جانے والی سزاؤں کا جائزہ لینا ہو گی۔ کونسل سزاؤں کے سماجی اثرات، قانونی شفافیت اور عوامی آگہی کے لیے تجاویز مرتب کرے گی۔

کونسل کے ملازمین کی حیثیت واضح

قانون میں یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ کونسل کے ملازمین کو اب سول سرونٹس تصور کیا جائے گا، جن کی بھرتی خیبر پختونخوا سول سرونٹس ایکٹ 1973ء کے تحت ہو گی۔

حزب اختلاف کی تنقید

اگرچہ اپوزیشن کی جانب سے بعض ترامیم پیش کی گئیں، تاہم حکومت نے انہیں شامل نہیں کیا، جس پر جے یو آئی (ف) اور دیگر جماعتوں کی طرف سے تنقید بھی سامنے آئی۔ اپوزیشن کے مطابق، ایسے فیصلوں سے وزیر اعلیٰ کے اختیارات میں غیر متوازن اضافہ ہوتا ہے، جو جمہوری شفافیت کے لیے سوالیہ نشان بن سکتا ہے۔

سیاسی مبصرین کی رائے

سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق، اس ترمیم سے وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کو قانونی اور انتظامی سطح پر مزید خودمختاری حاصل ہو گئی ہے، جو آئندہ پالیسی فیصلوں پر اثر انداز ہو سکتی ہے۔ تاہم، اس قانون کے عملاً اطلاق اور نتائج وقت کے ساتھ ہی واضح ہوں گے۔