98
سندھ طاس معاہدے سے انحراف جنگ کی دعوت ہے، اسحاق ڈار
اسحاق ڈار کا بھارت کو انتباہ: سندھ طاس معاہدے سے چھیڑ چھاڑ 'اقدامِ جنگ' تصور ہوگا پاکستان کے نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ سینیٹر اسحاق ڈار نے خبردار کیا ہے کہ اگر بھارت نے سندھ طاس معاہدے میں کسی بھی قسم کی مداخلت کی کوشش کی، تو اسے پاکستان کی جانب سے "اقدامِ جنگ" سمجھا…
اسحاق ڈار کا بھارت کو انتباہ: سندھ طاس معاہدے سے چھیڑ چھاڑ ‘اقدامِ جنگ’ تصور ہوگا
پاکستان کے نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ سینیٹر اسحاق ڈار نے خبردار کیا ہے کہ اگر بھارت نے سندھ طاس معاہدے میں کسی بھی قسم کی مداخلت کی کوشش کی، تو اسے پاکستان کی جانب سے "اقدامِ جنگ” سمجھا جائے گا۔
ایک حالیہ میڈیا انٹرویو میں بات کرتے ہوئے اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ پاکستان اس موقف پر قائم ہے کہ سندھ طاس معاہدہ دونوں ممالک کے درمیان ایک بین الاقوامی قانونی معاہدہ ہے، اور اس سے انحراف ناقابل قبول ہے۔
ان کا کہنا تھا:
"پاکستان واضح کر چکا ہے کہ سندھ طاس معاہدے سے چھیڑ چھاڑ، پاکستان کے پانی کا رخ موڑنا یا اسے روکنے کی کوشش اقدامِ جنگ تصور کیا جائے گا۔”
‘برابری اور دفاعی توازن ثابت کر دیا’
وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان نے ماضی میں اپنی برابری اور دفاعی توازن کو ثابت کر دیا ہے، اور اب وقت ہے کہ دونوں ممالک مثبت انداز میں آگے بڑھیں۔
ان کے مطابق:
"ہم جامع مذاکرات کے ذریعے تمام مسائل کا حل چاہتے ہیں۔ قوموں کو زندگی میں بعض اوقات سنجیدہ فیصلے کرنا پڑتے ہیں، جیسے ہم نے 9 مئی کی رات کیے۔”
یہ بیان اُن واقعات کی طرف اشارہ ہو سکتا ہے جن میں پاکستان نے اہم قومی سلامتی کے فیصلے کیے، تاہم وزیر خارجہ نے اس کی مزید وضاحت نہیں کی۔
‘تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی’
اسحاق ڈار نے مزید کہا کہ پاکستان ہمیشہ سے بھارت کے ساتھ جامع مذاکرات کے لیے تیار رہا ہے، مگر ایسے مسائل میں تاخیر دونوں ممالک کے لیے نقصان دہ ہو سکتی ہے۔
انہوں نے کہا:
"تالی ایک ہاتھ سے نہیں بج سکتی۔ اگر دیر کی گئی تو اس کے منفی اثرات پورے خطے پر مرتب ہو سکتے ہیں۔”
مسئلہ کشمیر اور ٹرمپ کا کردار
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ممکنہ کردار سے متعلق سوال پر اسحاق ڈار نے کہا کہ ان کے خیال میں ٹرمپ ایک اہم عالمی رہنما ہیں، اور خطے میں کشیدگی کی اصل جڑ مسئلہ کشمیر ہے۔
"مسئلہ کشمیر جنوبی ایشیا میں عدم استحکام اور خطرات کی اصل وجہ ہے، اور عالمی برادری کو اس کا نوٹس لینا چاہیے۔”
سندھ طاس معاہدہ کیا ہے؟
یاد رہے کہ سندھ طاس معاہدہ 1960ء میں پاکستان اور بھارت کے درمیان عالمی بینک کی ثالثی میں طے پایا تھا۔ اس کے تحت دریائے سندھ، جہلم اور چناب پاکستان کے حصے میں آئے، جبکہ راوی، بیاس اور ستلج بھارت کو دیے گئے۔
پاکستان کا مؤقف رہا ہے کہ بھارت بعض اوقات ان دریاؤں پر ڈیمز اور دیگر تعمیرات کے ذریعے معاہدے کی خلاف ورزی کرتا ہے، جس پر اسلام آباد نے ماضی میں کئی بار عالمی سطح پر احتجاج بھی کیا ہے۔