98
پاک بھارت کشیدگی کے باعث بھارت میں متعدد ہوائی اڈے بند، فضائی آپریشن متاثر
پاک بھارت کشیدگی: بھارتی فضائی آپریشن متاثر، متعدد ایئرپورٹس بند نئی دہلی / اسلام آباد — پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ سرحدی کشیدگی کے بعد بھارت کے کئی شمالی ایئرپورٹس پر فضائی آپریشن بری طرح متاثر ہوا ہے۔ بھارتی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق، موجودہ صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے حفاظتی اقدامات کے تحت…
پاک بھارت کشیدگی: بھارتی فضائی آپریشن متاثر، متعدد ایئرپورٹس بند
نئی دہلی / اسلام آباد — پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ سرحدی کشیدگی کے بعد بھارت کے کئی شمالی ایئرپورٹس پر فضائی آپریشن بری طرح متاثر ہوا ہے۔ بھارتی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق، موجودہ صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے حفاظتی اقدامات کے تحت متعدد ہوائی اڈوں پر پروازوں کی آمد و رفت معطل یا محدود کر دی گئی ہے۔
رپورٹ کے مطابق متاثرہ ایئرپورٹس میں دھرم شالہ، لیہہ، جموں، سری نگر، امرتسر اور چندی گڑھ شامل ہیں۔ ان ہوائی اڈوں پر شہری اور تجارتی پروازوں کو منسوخ کر دیا گیا ہے یا تاخیر کا سامنا ہے۔ اس کے علاوہ جودھ پور، بھُج، غازی آباد، جام نگر اور بیکانیر جیسے علاقوں میں بھی کئی پروازیں متاثر ہوئی ہیں۔
بھارتی ایئر لائنز نے مسافروں کو سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے ذریعے تاخیر اور منسوخی سے آگاہ کیا ہے اور مسافروں کو ہدایت دی ہے کہ وہ سفر سے قبل ایئرلائنز سے رابطہ کریں یا ویب سائٹس سے اپڈیٹ حاصل کریں۔
پس منظر
یہ پیش رفت ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب پاکستان نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے بھارتی افواج کے "بزدلانہ حملے” کا رات کے اندھیرے میں مؤثر جواب دیا۔ پاکستانی فوج کے مطابق، اس کارروائی میں بھارت کے جنگی طیارے اور ڈرونز کو نشانہ بنایا گیا، جبکہ لائن آف کنٹرول پر بھارتی عسکری تنصیبات کو بھی نقصان پہنچایا گیا ہے۔
بھارتی حکام کی جانب سے اس حوالے سے تاحال کوئی سرکاری بیان جاری نہیں کیا گیا ہے، تاہم بھارتی میڈیا میں جاری خبروں میں کہا جا رہا ہے کہ موجودہ فضائی پابندیاں احتیاطی تدابیر کے طور پر نافذ کی گئی ہیں۔
ماہرین کی رائے
علاقائی امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ حالیہ فضائی آپریشن کی معطلی کشیدگی کی سنگینی کو ظاہر کرتی ہے، اور اگر دونوں فریقین کے درمیان تناؤ برقرار رہا تو اس کے اثرات نہ صرف فضائی سفر بلکہ دیگر سفارتی اور اقتصادی شعبوں پر بھی مرتب ہو سکتے ہیں۔
اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی اداروں کی جانب سے فوری طور پر کسی ردِعمل کا اظہار نہیں کیا گیا، تاہم مبصرین خطے میں قیامِ امن کے لیے سفارتی کوششوں کی ضرورت پر زور دے رہے ہیں۔