98
مانیٹری پالیسی سے متعلق اسٹیٹ بینک کی معاشی تجزیہ کاروں کو بریفنگ
اسٹیٹ بینک کی بریفنگ: ترسیلاتِ زر 38 ارب ڈالر تک پہنچنے کی توقع، کرنٹ اکاؤنٹ میں سرپلس ریکارڈ کراچی —اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) نے پیر کو معاشی تجزیہ کاروں کو مانیٹری پالیسی کے حوالے سے ایک تفصیلی بریفنگ دی، جس میں ملک کی معاشی صورتحال، زرمبادلہ کے ذخائر، ترسیلاتِ زر اور آئی…
اسٹیٹ بینک کی بریفنگ: ترسیلاتِ زر 38 ارب ڈالر تک پہنچنے کی توقع، کرنٹ اکاؤنٹ میں سرپلس ریکارڈ
کراچی —
اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) نے پیر کو معاشی تجزیہ کاروں کو مانیٹری پالیسی کے حوالے سے ایک تفصیلی بریفنگ دی، جس میں ملک کی معاشی صورتحال، زرمبادلہ کے ذخائر، ترسیلاتِ زر اور آئی ایم ایف پروگرام سے متعلق اہم نکات پیش کیے گئے۔
اس بریفنگ کے دوران مرکزی بینک کا کہنا تھا کہ رواں مالی سال کے دوران بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے بھجوائی جانے والی ترسیلاتِ زر 38 ارب ڈالر کی سطح تک پہنچنے کی توقع ہے، جو ملکی معیشت کے لیے ایک مثبت اشارہ ہے۔
کرنٹ اکاؤنٹ میں سرپلس، درآمدات میں اضافہ
اسٹیٹ بینک کے مطابق رواں مالی سال کے ابتدائی نو ماہ کے دوران کرنٹ اکاؤنٹ بیلنس میں 1.9 ارب ڈالر کا سرپلس ریکارڈ کیا گیا ہے، جو گزشتہ برسوں کے مقابلے میں ایک نمایاں بہتری ہے۔ مرکزی بینک کا کہنا ہے کہ درآمدات میں حالیہ اضافہ ملکی معیشت میں بحالی کی علامت ہے۔
بینک کے مطابق عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمتوں میں کمی کے باعث پاکستان کا درآمدی بل قابو میں رہا، جس سے ادائیگیوں کے توازن میں بہتری آئی ہے۔
زرمبادلہ کے ذخائر اور آئی ایم ایف پروگرام
مرکزی بینک نے توقع ظاہر کی ہے کہ جون 2025ء تک ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر 14 ارب ڈالر کی سطح تک پہنچ سکتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی بتایا گیا کہ پاکستان کا موجودہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) پروگرام "ٹریک پر” ہے، اور فی الحال کسی نئے مذاکرات کی ضرورت نہیں ہے۔
مانیٹری پالیسی اور مہنگائی کا ہدف
اسٹیٹ بینک کے مطابق اس وقت مانیٹری پالیسی کا موقف "مناسب حد تک مثبت” ہے، اور اس کا بنیادی مقصد مہنگائی کو 5 سے 7 فیصد کی حد میں رکھنا ہے۔ اس ضمن میں بینک نے بتایا کہ مالیاتی نظم و ضبط، حکومتی سبسڈی میں کمی، اور سود کی ادائیگیوں کو کنٹرول کرنے کے اقدامات کے نتیجے میں حکومتی قرضہ مجموعی قومی پیداوار (GDP) کے 67 فیصد تک محدود کیا گیا ہے۔
زرعی شعبے کو لاحق خطرات
بریفنگ میں یہ بھی نشاندہی کی گئی کہ زرعی شعبہ اس وقت موسمیاتی اثرات، پانی کی قلت، اور ان پٹ قیمتوں میں اضافے جیسے کئی خطرات سے دوچار ہے، جس کے ممکنہ اثرات آنے والے مہینوں میں زرعی پیداوار پر پڑ سکتے ہیں۔