24 ذوالحجة / June 20

تحریر خرم ابن شبیر

گزشتہ ایک صدی کے دوران صہیونیوں اور اسرائیل کو مغربی طاقتوں، بالخصوص امریکہ، برطانیہ اور یورپ کی بے مثال فوجی، مالی اور سفارتی سرپرستی حاصل رہی۔ یہ حمایت تاریخی روابط، مشترکہ اسٹریٹجک مفادات اور ہولوکاسٹ کے بعد کے نام نہاد اخلاقی وعدوں پر استوار تھی۔ مگر آج، خاص طور پر غزہ میں جاری بحران اور جون 2025 میں ایران پر اسرائیل کے حملے کے بعد، یہ دیرینہ رفاقت تناؤ کا شکار ہو چکی ہے۔

اب وقت ہے اس تبدیلی پر غور کرنے کا، کہ کیسے اسرائیل کی جارحانہ پالیسیاں، عالمی قوانین اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں اس کی روایتی حمایت کو متزلزل کر رہی ہیں۔ حکومتی سطح پر یہ دوری واضح ہے، لیکن عوامی سطح پر اس کے اثرات کہیں زیادہ گہرے ہیں۔

7 اکتوبر 2023 کو حماس کے حملے کے بعد اسرائیل کے غیر انسانی ردعمل نے پچاس ہزار سے زائد فلسطینیوں کو شہید کیا، غزہ کو کھنڈر بنا دیا، اور 90 فیصد آبادی کو بے گھر کر دیا، جس کے باعث قحط کے خطرات منڈلانے لگے۔ اس وحشیانہ کارروائی نے عالمی سطح پر مذمت اور جنگ بندی کے مطالبات کو جنم دیا، جبکہ امریکہ بار بار اقوام متحدہ کی قراردادوں کو ویٹو کرتا رہا۔

ابتدا میں اسرائیل کے حقِ دفاع کے حامی یورپی ممالک اب اس کی ظالمانہ پالیسیوں اور منظم بھوک کو ہتھیار بنانے جیسے اقدامات پر شدید تنقید کر رہے ہیں۔ کونسل آف یورپ نے اسرائیلی مظالم کو جنیوا کنونشنز کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا، اور اسرائیل کے حقِ دفاع کے پرانے جواز پر سوالات اٹھا دیے۔

ایران پر اسرائیل کے بلا جواز حملے نے اس تنہائی کو اور گہرا کر دیا۔ امریکہ اور برطانیہ نے اپنی عدم شمولیت کا اعلان کیا، جبکہ یورپی یونین کے رہنماؤں نے کشیدگی کم کرنے کی اپیل کی۔ اسرائیل کی یکطرفہ کارروائیوں نے مغربی اتحادیوں کی سفارتی ترجیحات کو نظر انداز کیا، جس کے بعد پالیسیوں کے ازسرِ نو جائزے کا آغاز ہوا اور روایتی حمایت میں نمایاں کمی آئی۔

ٹرمپ انتظامیہ اور دیگر مغربی حکومتوں نے اسرائیل کی کارروائیوں سے لاتعلقی کا اظہار کیا۔ امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے اسرائیل کی کارروائی کو "یکطرفہ” قرار دیا، جبکہ برطانیہ، فرانس اور کینیڈا نے اسرائیلی حکام پر پابندیاں عائد کر دیں۔ یورپی ممالک میں غزہ پر اسرائیلی مظالم کی مذمت شدت اختیار کر چکی ہے، اور کئی ممالک نے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرتے ہوئے اسرائیل کو ہتھیاروں کی برآمدات معطل کر دی ہیں۔

عوامی سطح پر بھی مغرب میں اسرائیل کی حمایت زوال پذیر ہے۔ نوجوان نسل سوشل میڈیا کے ذریعے حقائق سے براہِ راست آگاہ ہو رہی ہے اور فلسطینیوں کے مصائب سے ہمدردی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ امریکہ، برطانیہ اور جرمنی جیسے ممالک میں سروے ظاہر کرتے ہیں کہ اسرائیل کی حمایت اب ماضی کی طرح غیر مشروط نہیں رہی۔

سوشل میڈیا روایتی میڈیا کے بیانیے کو چیلنج کر رہا ہے، اور عالمی رائے عامہ میں بڑی تبدیلی کا محرک بن رہا ہے۔ گراس روٹس صحافت، شہری رپورٹنگ اور شراکتی ثقافت نے اسرائیل کی استثنیٰ کی دیوار کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔

آخرکار، 2023–2025 کے واقعات اس بات کا اعلان کر رہے ہیں کہ مغرب-اسرائیل تعلقات میں وہ پرانی یکجہتی اب باقی نہیں رہی۔ مغرب اب اسرائیل کی جارحانہ پالیسیوں پر آنکھ بند کرنے کے بجائے قومی مفادات، عالمی قوانین اور انسانی اقدار کو ترجیح دے رہا ہے۔ اس بدلتے منظرنامے کے نتائج دیرپا اور شاید ناقابلِ واپسی ہوں گے۔