98
امریکا اور چین میں تجارتی معاہدہ طے پا گیا، ٹرمپ کا دعویٰ
ٹرمپ کا چین کے ساتھ تجارتی معاہدے کا اعلان، "تعلقات بہترین ہیں" واشنگٹن ڈی سی:امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ چین اور امریکہ کے درمیان ایک نیا تجارتی معاہدہ طے پا گیا ہے، جس کی حتمی منظوری دونوں ممالک کے صدور دیں گے۔ ٹرمپ نے یہ اعلان اپنے سوشل میڈیا بیان…
ٹرمپ کا چین کے ساتھ تجارتی معاہدے کا اعلان، "تعلقات بہترین ہیں”
واشنگٹن ڈی سی:
امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ چین اور امریکہ کے درمیان ایک نیا تجارتی معاہدہ طے پا گیا ہے، جس کی حتمی منظوری دونوں ممالک کے صدور دیں گے۔ ٹرمپ نے یہ اعلان اپنے سوشل میڈیا بیان میں کیا، جس کے بعد دنیا بھر میں اس پیش رفت کو دلچسپی سے دیکھا جا رہا ہے۔
‘معاہدہ مکمل، تعلقات بہترین’
سابق صدر ٹرمپ نے کہا کہ چین کے ساتھ تجارتی معاہدہ مکمل ہو چکا ہے اور اب صرف ان کی اور چینی صدر کی رسمی منظوری باقی ہے۔ ان کے مطابق، یہ معاہدہ دونوں ممالک کے درمیان جاری تجارتی تناؤ کو کم کرے گا۔
انہوں نے کہا:
"چین کے ساتھ ہمارے تعلقات بہترین ہیں، ہم نے ایک مضبوط اور متوازن معاہدہ طے کیا ہے۔”
ٹیرف کی تفصیلات
ٹرمپ نے اپنے بیان میں دعویٰ کیا کہ امریکہ نے اس معاہدے کے تحت مجموعی طور پر 55 فیصد ٹیرف حاصل کیا ہے، جبکہ چین کو صرف 10 فیصد ٹیرف تک رسائی دی گئی ہے۔ تجزیہ کار اس دعوے کو تجارتی مذاکرات میں امریکہ کی برتری کے طور پر دیکھ رہے ہیں، تاہم اس کی تفصیلات ابھی سامنے نہیں آئیں۔
نایاب معدنیات اور تعلیمی مواقع معاہدے کا حصہ
معاہدے کے تحت چین نایاب معدنیات (Rare Earth Elements) اور میگنٹس امریکہ کو فراہم کرے گا، جو دفاعی، ٹیکنالوجی اور توانائی کی صنعتوں کے لیے اہم تصور کیے جاتے ہیں۔
اس کے علاوہ، ٹرمپ کے مطابق چینی طلباء کی امریکہ میں تعلیم سمیت دیگر باہمی امور پر بھی اتفاق رائے ہوا ہے، اور امریکہ نے کچھ مراعات چین کو دینے پر آمادگی ظاہر کی ہے۔
سیاسی اور معاشی حلقوں میں ملا جلا ردعمل
ٹرمپ کے اس اعلان پر بین الاقوامی تجزیہ کار اور امریکی سیاست دان مختلف آراء کا اظہار کر رہے ہیں۔ بعض ماہرین اس پیش رفت کو مثبت اقتصادی اشارہ قرار دے رہے ہیں، تو کچھ اسے سیاسی بیانیہ اور انتخابی مہم کا حصہ بھی قرار دے رہے ہیں، خصوصاً ایسے وقت میں جب ٹرمپ دوبارہ صدارتی دوڑ میں شامل ہیں۔
چین کی جانب سے ابھی کوئی باضابطہ ردعمل نہیں آیا
ابھی تک چینی حکومت یا اس کے کسی اعلیٰ عہدیدار نے اس معاہدے کے بارے میں کوئی باقاعدہ بیان جاری نہیں کیا، جس کی وجہ سے تجارتی حلقے اس معاہدے کی تفصیلات اور عمل درآمد پر سوالات اٹھا رہے ہیں۔