98
سعودی وزیر خارجہ نے رام اللّٰہ کا دورہ ملتوی کردیا، ذرائع
اسرائیلی اجازت نہ ملنے پر سعودی وزیرِ خارجہ نے رام اللّٰہ کا دورہ ملتوی کر دیا ریاض / رام اللّٰہ — سعودی وزیرِ خارجہ فیصل بن فرحان نے اتوار کے روز رام اللّٰہ میں ہونے والے اہم دورے کو ملتوی کر دیا ہے۔ اس دورے میں ان کے ہمراہ دیگر عرب ممالک کے وزرائے خارجہ…
اسرائیلی اجازت نہ ملنے پر سعودی وزیرِ خارجہ نے رام اللّٰہ کا دورہ ملتوی کر دیا
ریاض / رام اللّٰہ — سعودی وزیرِ خارجہ فیصل بن فرحان نے اتوار کے روز رام اللّٰہ میں ہونے والے اہم دورے کو ملتوی کر دیا ہے۔ اس دورے میں ان کے ہمراہ دیگر عرب ممالک کے وزرائے خارجہ کی شرکت بھی متوقع تھی، تاہم اسرائیل کی جانب سے اجازت نہ دیے جانے کے باعث یہ سفارتی اقدام مؤخر کر دیا گیا۔
برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز سے گفتگو میں سعودی ذرائع نے تصدیق کی کہ وزیرِ خارجہ فیصل بن فرحان نے یہ دورہ ملتوی کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ فیصلہ مجبوری کے تحت کیا گیا کیونکہ اسرائیلی حکام نے سعودی عرب سمیت عرب وزرائے خارجہ کو رام اللّٰہ جانے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا تھا۔
فلسطینی اتھارٹی کی دعوت پر دورے کی منصوبہ بندی
یہ دورہ فلسطینی اتھارٹی کی دعوت پر طے پایا تھا جس میں سعودی عرب، مصر، اردن، قطر اور متحدہ عرب امارات کے وزرائے خارجہ کی شرکت متوقع تھی۔ پروگرام کے مطابق ان وزرائے خارجہ کو فلسطینی صدر محمود عباس سے ملاقات کرنا تھی، جس کا مقصد اسرائیل-فلسطین تنازع کے حالیہ تناظر میں عرب دنیا کی حمایت اور یکجہتی کا اظہار کرنا تھا۔
اسرائیلی فیصلے پر شدید ردعمل
اسرائیلی فیصلے پر عرب ممالک کی جانب سے شدید مذمت کی گئی ہے۔ اردن کی وزارت خارجہ نے ایک سخت بیان جاری کرتے ہوئے کہا:
"رام اللّٰہ میں وزرائے خارجہ کی موجودگی فلسطینی عوام سے یکجہتی کا مظہر تھی۔ اسرائیل کا انہیں روکنا غیر سفارتی، ناقابلِ قبول اور بین الاقوامی اصولوں کے خلاف ہے۔”
دیگر عرب ممالک کی جانب سے بھی اس فیصلے کو فلسطینی کاز کو کمزور کرنے کی کوشش قرار دیا جا رہا ہے۔
پس منظر
یہ پیش رفت ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب غزہ میں جاری اسرائیلی فوجی کارروائیوں اور مغربی کنارے میں کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔ عرب ممالک، خصوصاً خلیجی ریاستیں، اس تناظر میں فلسطینی اتھارٹی کو سیاسی، سفارتی اور انسانی سطح پر مدد فراہم کرنے کے لیے سرگرم ہیں۔
تجزیہ کاروں کے مطابق اسرائیل کی جانب سے اس دورے کی اجازت نہ دینا خطے میں جاری کشیدگی کو مزید بڑھا سکتا ہے اور اسرائیل و عرب دنیا کے تعلقات میں رکاوٹ پیدا کر سکتا ہے۔