25 ذوالحجة / June 21

وہ جو برفاں ہیٹھ تندور تھا

تحریر: خرم ابن شبیر

یہ دُنیا بڑے بڑے فنکاروں کو لمحوں میں نگل جاتی ہے۔ موت اتنی منصف نہیں کہ اچھے برے میں فرق کرے۔ وہ بس آتی ہے اور لے جاتی ہے… اور پیچھے رہ جاتا ہے ایک خالی کمرہ، ایک ویران مکتبِ فکر، اور چند ورق… جن پر لفظ نہیں ہوتے، سانسیں ہوتی ہیں۔

تجمل کلیم بھی انہی لفظوں کی سانسوں میں ڈھلا شاعر تھا۔

ایسا شاعر، جس نے پنجابی زبان کو محض زبان نہیں، دھڑکن بنایا۔

ایسا شاعر، جس کی شاعری میں مٹی کی مہک تھی، صوفی کی صدا تھی، اور درد کی وہ خوشبو تھی، جو روح تک اتر جائے۔

میں جب بھی ان کی کتاب "برفاں ہیٹھ تندور” کا نام سنتا ہوں تو ذہن میں ایک تصویر بنتی ہے…

ایک منجمد معاشرے میں سلگتا ہوا دل۔

جہاں سرد موسموں میں بھی جذبوں کی گرمی باقی ہو۔

تجمل کلیم نے زندگی بھر اسی گرمی کو لفظوں میں سمونے کی کوشش کی۔

اس نے شاعری کو کاروبار نہیں بنایا، نعرہ بھی نہیں بنایا۔

بلکہ محبت کی گود میں بٹھا کر ماں جیسا مان دیا۔

تجمل کلیم کا تعلق عام پس منظر سے تھا، لیکن ان کے الفاظ غیر معمولی تھے۔

وہ جس محفل میں بولتے، دل بولنے لگتا۔

پنجابی غزل کو انہوں نے لفظی درویشی عطا کی۔

ان کے ہاں ‘میں’ نہیں تھا، ‘تو’ تھا…

اور یہی ‘تو’ انہیں عظیم بناتا تھا۔

ان کی آخری عمر مالی اور جسمانی مشکلات میں گزری۔

حکومت نے وقتی امداد دی، اخبارات نے تصویریں چھاپ دیں،

لیکن نہ وہ علاج تھا، نہ وہ عزت جس کے وہ مستحق تھے۔

یاد رکھیے…

ہمارے ہاں شاعر مرتا نہیں، مار دیا جاتا ہے۔

اور جب دفن ہوتا ہے تو اس کے ساتھ ثقافت کا ایک باب بھی دفن ہو جاتا ہے۔

تجمل کلیم کے جانے کے بعد پنجابی شاعری کا ایک روشن باب بند ہو گیا۔

اب اس کے بعد جو آئے گا، وہ شاید لفظ تو لکھے گا…

لیکن اُن جیسا لہجہ کہاں سے لائے گا؟

کاش… ہم اپنے زندہ لوگوں کو بھی اتنی اہمیت دینا سیکھ جائیں، جتنی ہم مرنے کے بعد تعزیت میں دیتے ہیں۔

ورنہ ہر شاعر، ہر فنکار، ہر کلیم، اسی طرح تنہا مرتا رہے گا…

خرم ابن شبیر

نوٹ: یہ کالم ایک شاعر کے لیے نہیں، تمام فنکاروں کے لیے ہے۔ زندہ رہیں، تب یاد رکھیں۔