1 ذوالقعدة / April 29

تحریر: خرم ابن شبیر

بسم اللہ الرحمن الرحیم

یہ زمین و آسمان، یہ کائنات کی وسعتیں، یہ چمکتے ستارے اور یہ گونجتی ہوائیں— سب کچھ تخلیق کرنے والے نے نبی اکرم ﷺ کے وجودِ مسعود کی برکت سے بنایا۔ وہ ذاتِ مبارکہ جس پر خود اللہ اور اس کے فرشتے درود بھیجتے ہیں، وہ ہستی جس کا ذکر بلند کرنے کی اللہ نے خود ضمانت دی، وہ رحمت للعالمین ﷺ جنہوں نے اندھیروں میں بھٹکی انسانیت کو روشنی دکھائی۔

مگر افسوس! آج وہی محبوبِ خدا ﷺ کچھ بدبختوں کی زبانوں اور تحریروں کا نشانہ بن رہے ہیں۔

یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں۔ یہ کوئی سادہ سا مسئلہ نہیں کہ ہم بس سر جھکا کر گزر جائیں۔ یہ ہمارے ایمان کی سب سے بڑی آزمائش ہے! جب ہم کہتے ہیں کہ "ہماری جان، ہمارا مال، ہماری عزت، ہماری اولاد سب کچھ نبی کریم ﷺ پر قربان”، تو کیا یہ صرف زبانی دعویٰ ہے؟ کیا ہم واقعی اس دعوے پر کھڑے ہیں؟

15 مارچ کو حکومتِ پاکستان کی جانب سے "یومِ تحفظِ ناموسِ رسالت ﷺ” منایا جا رہا ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ ہر دن، ہر لمحہ، ہر سانس ناموسِ مصطفیٰ ﷺ کی حفاظت کے لیے وقف ہونا چاہیے۔

آج کے دور میں جنگیں صرف میدان میں نہیں لڑی جاتیں، بلکہ قلم، زبان اور سوشل میڈیا کے ذریعے نظریات پر حملے کیے جاتے ہیں۔ ایک مخصوص مافیا کھل کر نبی اکرم ﷺ، اہل بیت اطہار اور صحابہ کرام کے خلاف زہر افشانی کر رہی ہے۔ ان کے مذموم عزائم واضح ہیں:

1. مسلمانوں کے دلوں میں بے حسی پیدا کرنا۔

2. عقیدت کو کمزور کر کے ناموسِ رسالت ﷺ کے معاملے کو معمولی بنا دینا۔

3. امت میں تفرقہ ڈالنا تاکہ مسلمان آپس میں ہی الجھے رہیں۔

 

لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ ہم کیا کر رہے ہیں؟ ہم اپنی روزمرہ زندگی میں اتنے مگن ہو چکے ہیں کہ جب نبی کریم ﷺ کی ناموس پر حملے ہو رہے ہوتے ہیں، تب بھی ہمیں فرق نہیں پڑتا؟ کیا ہماری غیرت مر چکی ہے؟ کیا ہمارے دل پتھر ہو چکے ہیں؟

ہم میں سے ہر شخص چاہے وہ عالم ہو، ڈاکٹر ہو، انجینئر ہو، سرکاری افسر ہو یا عام مزدور، سب پر فرض ہے کہ وہ اس فتنے کے خلاف آواز اٹھائے۔ اگر ہم خاموش رہتے ہیں تو یاد رکھیں کہ یہ خاموشی بھی جرم کے زمرے میں آتی ہے۔

ہمیں چاہیے کہ:

اپنے گھروں میں، اپنی محفلوں میں، اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر اس مسئلے کو اجاگر کریں۔

حکومت سے مطالبہ کریں کہ گستاخانہ مواد پھیلانے والوں کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے۔

سوشل میڈیا پر اس معاملے پر شعور بیدار کریں اور عالمی سطح پر اس کے خلاف مؤثر آواز اٹھائیں۔

اگر کوئی ہمارے ماں باپ کی توہین کرے، ہماری بہن بیٹی کو برا کہے، تو کیا ہم خاموش رہیں گے؟ نہیں! ہم تڑپ اٹھیں گے، ہم چیخیں گے، ہم اس کا جواب دیں گے۔ تو پھر سوچیں! جس ہستی ﷺ نے ہمیں ایمان کی روشنی دی، جس ہستی کی وجہ سے آج ہم مسلمان ہیں، اس کی توہین پر خاموشی کیسی؟

یہ وقت تقریروں، بیانات اور رسمی قراردادوں کا نہیں، بلکہ عملی اقدام اٹھانے کا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم ہر پلیٹ فارم پر آواز اٹھائیں، ہر ممکن کوشش کریں اور ناموسِ رسالت ﷺ کے تحفظ کے لیے اپنی جان و مال سے بھی دریغ نہ کریں۔

ہم سب اللہ کے حضور سجدہ ریز ہوں اور دعا کریں:
"یا اللہ! ہمیں اس آزمائش میں سرخرو فرما، ہمیں بے حسی سے نکال، ہمیں وہ ہمت دے کہ ہم تیرے محبوب ﷺ کی ناموس کی حفاظت میں ہر ممکن کردار ادا کر سکیں!”

یہ وقت غفلت کا نہیں، یہ وقت جاگنے کا ہے! کیونکہ یاد رکھیں، سب کچھ برداشت کیا جا سکتا ہے، مگر ناموسِ مصطفیٰ ﷺ پر سمجھوتہ ممکن نہیں!