3 ذوالقعدة / May 01

ایران اور روس کے درمیان جوہری پروگرام پر بات چیت، امریکا سے مذاکرات نہ کرنے کا اعلان

روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاوروف ایران کے سرکاری دورے پر تہران پہنچے، جہاں انہوں نے ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی کے ساتھ ملاقات کی اور ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کیا۔

پریس کانفرنس کے دوران ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ روس کے ساتھ جوہری پروگرام کے حوالے سے بات چیت ہوئی ہے اور یہ سلسلہ آئندہ بھی جاری رہے گا۔ تاہم، انہوں نے واضح کیا کہ ایران کسی دباؤ یا دھمکی کے تحت مذاکرات نہیں کرے گا اور جب تک بیرونی دباؤ برقرار رہے گا، امریکا سے براہ راست بات چیت نہیں کی جائے گی۔

سفارتی حل کے امکانات اور علاقائی امور پر تبادلہ خیال

روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے کہا کہ ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق سفارتی اقدامات اب بھی موجود ہیں اور اس مسئلے کا پرامن حل ممکن ہے۔

انہوں نے علاقائی تنازعات پر بھی بات کی، خاص طور پر شام کی صورتِ حال کے بارے میں کہا کہ عالمی برادری کی مستقل توجہ ضروری ہے تاکہ وہاں کے بحران کو حل کیا جا سکے۔

مزید برآں، اقوام متحدہ میں یوکرین تنازع پر ہونے والی ووٹنگ کا حوالہ دیتے ہوئے روسی وزیر خارجہ نے کہا کہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بین الاقوامی برادری کو اس تنازع کی بنیادی وجوہات کی بہتر تفہیم حاصل ہو رہی ہے۔

پسِ منظر اور ممکنہ اثرات

ایران اور روس کے درمیان جوہری پروگرام پر یہ بات چیت ایک ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب ایران پر مغربی ممالک کی طرف سے دباؤ بڑھ رہا ہے اور امریکہ ایران کو دوبارہ جوہری معاہدے (JCPOA) میں شامل کرنے کے لیے مختلف سفارتی کوششیں کر رہا ہے۔ تاہم، ایران کا امریکا سے براہ راست بات نہ کرنے کا مؤقف اس تنازع کو مزید پیچیدہ بنا سکتا ہے۔

دوسری جانب، روس کا ایران کے ساتھ جوہری مذاکرات میں کردار عالمی سفارتی حکمت عملی کا اہم حصہ بنتا جا رہا ہے۔ روس ایران کے جوہری پروگرام کے پرامن حل کی حمایت کر رہا ہے، لیکن وہ امریکا اور اس کے اتحادیوں کے سخت گیر مؤقف سے اختلاف رکھتا ہے۔

نتائج اور مستقبل کے امکانات

اس ملاقات کے بعد یہ واضح ہوتا ہے کہ ایران اور روس جوہری پروگرام پر اپنی بات چیت جاری رکھیں گے، جبکہ امریکا کے ساتھ سفارتی ڈیڈلاک بدستور برقرار رہے گا۔ ماہرین کے مطابق، اگر ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان کشیدگی برقرار رہی تو یہ خطے میں مزید جیو پولیٹیکل تناؤ کو جنم دے سکتی ہے۔