98
کیا محمود غزنوی ایک لٹیرا تھا؟
تحریر: خرم ابن شبیر محمود غزنوی کی شخصیت پر تاریخ میں ہمیشہ مختلف رائے قائم کی گئی ہے۔ کچھ مورخین نے اسے ایک عظیم فاتح اور اسلام کا مجاہد قرار دیا ہے، جبکہ کچھ نے اسے ایک لٹیرا، لوٹ مار کرنے والا اور ہندوستانی تہذیب کے دشمن کے طور پر پیش کیا ہے۔ اس سوال…
تحریر: خرم ابن شبیر
محمود غزنوی کی شخصیت پر تاریخ میں ہمیشہ مختلف رائے قائم کی گئی ہے۔ کچھ مورخین نے اسے ایک عظیم فاتح اور اسلام کا مجاہد قرار دیا ہے، جبکہ کچھ نے اسے ایک لٹیرا، لوٹ مار کرنے والا اور ہندوستانی تہذیب کے دشمن کے طور پر پیش کیا ہے۔ اس سوال کا جواب دینا آسان نہیں کیونکہ محمود غزنوی کے حملے نہ صرف مذہبی بلکہ سیاسی اور اقتصادی مقاصد کے تحت کیے گئے تھے۔ اس مضمون میں ہم ان تمام پہلوؤں کو غیر جانب دارانہ طور پر دیکھیں گے تاکہ یہ طے کیا جا سکے کہ آیا محمود غزنوی واقعی ایک لٹیرا تھا یا صرف ایک فاتح جس نے اپنی سلطنت کی توسیع کے لیے ہندوستان پر حملے کیے۔
محمود غزنوی 971 عیسوی میں غزنی کے شہر میں پیدا ہوا اور 999 عیسوی میں غزنی کا حکمران بنا۔ اس کی حکومت کا آغاز ایک ایسے وقت میں ہوا جب وسطی ایشیا میں کئی سلطنتیں اور حکومتی ادارے اپنی طاقت کے عروج پر تھے۔ محمود نے اپنے ابتدائی برسوں میں خود کو ایک سخت حکمران کے طور پر قائم کیا اور پھر اپنے دشمنوں کو شکست دے کر غزنی کی سلطنت کو مستحکم کیا۔ تاہم اس کا سب سے بڑا اور سب سے زیادہ متنازع پہلو اس کے ہندوستان پر کیے گئے حملے ہیں۔ محمود غزنوی نے ہندوستان پر 17 مرتبہ حملے کیے، جن میں سے کچھ حملے بہت معروف ہیں، خاص طور پر سومنات مندر پر حملہ۔
محمود غزنوی کے ہندوستان پر حملے اور اس کی لوٹ مار کی وجہ سے اس کی شخصیت پر سوالات اٹھے ہیں۔ کیا وہ ایک فاتح تھا جس نے اسلام کو پھیلانے اور ہندو تہذیب کے خلاف جنگ لڑی؟ یا وہ ایک لٹیرا تھا جس نے ہندوستان کے وسائل پر قبضہ کیا اور لاکھوں لوگوں کو نقصان پہنچایا؟ اس سوال کا جواب مختلف مورخین نے مختلف انداز میں دیا ہے۔
مسلمان مورخین جیسے العتبی اور فرشتہ نے محمود غزنوی کے حملوں کو ایک مذہبی جنگ کے طور پر پیش کیا۔ العتبی نے اپنی کتاب تاریخ الیمینی میں محمود کو اسلام کا مجاہد قرار دیا، جس نے ہندستان میں بت پرستی کے خلاف جنگ لڑی۔ ان کے مطابق، محمود غزنوی نے سومنات مندر پر حملہ کیا تاکہ بت پرستی کو مٹا سکے اور مسلمانوں کے لیے ایک محفوظ مذہبی ماحول فراہم کر سکے۔ ان مورخین کے مطابق، محمود کا مقصد صرف ہندوستان کی لوٹ مار نہیں تھا بلکہ وہ اسلام کی تبلیغ بھی کرنا چاہتا تھا۔
دوسری طرف، بعض غیر جانبدار مورخین اور مغربی مورخین نے محمود غزنوی کے حملوں کو تنقیدی انداز میں دیکھا ہے۔ ول ڈیورانٹ نے اپنی کتاب The Story of Civilization میں لکھا ہے کہ محمود کے حملے ہندوستانی ثقافت کے لیے تباہ کن تھے۔ ان کے مطابق، محمود نے نہ صرف مندروں کو لوٹا بلکہ ہندو معاشرتی اور ثقافتی ڈھانچے کو بھی نقصان پہنچایا۔ انہوں نے کہا کہ سومنات جیسے مندر کی لوٹ مار ایک ایسی سیاسی حکمت عملی تھی جس کا مقصد نہ صرف مذہب بلکہ دولت کا حصول بھی تھا۔ ان کے مطابق، محمود غزنوی نے اپنے حملوں کے ذریعے ہندوستان کے خزانے اور وسائل پر قبضہ کیا اور اپنی سلطنت کی اقتصادی طاقت کو مزید مستحکم کیا۔
محمود غزنوی کے حوالے سے سب سے اہم تجزیہ رومیلا تھاپر نے کیا ہے۔ رومیلا تھاپر، جو ایک مشہور بھارتی مورخ ہیں، نے اپنی کتاب Somanatha: The Temple and the Mosque میں محمود کے حملوں کو صرف مذہبی نقطہ نظر سے نہ دیکھنے کی ضرورت پر زور دیا۔ تھاپر کے مطابق، محمود کے حملے زیادہ تر اقتصادی اور سیاسی مقاصد کے تحت تھے۔ سومنات مندر کو اس وقت کی دنیا کا ایک بڑا تجارتی اور ثقافتی مرکز سمجھا جاتا تھا، اور محمود نے اسے لوٹنے کا فیصلہ اس لیے کیا کہ وہاں بے تحاشا دولت موجود تھی۔ وہ کہتی ہیں کہ یہ بات نہ صرف اس وقت کے اقتصادی حالات بلکہ سیاسی ضروریات کے تناظر میں بھی صحیح ثابت ہوتی ہے۔
رومیلا تھاپر نے یہ بھی کہا کہ برطانوی نوآبادیاتی دور میں محمود کے حملوں کو ایک خاص بیانیے کے تحت پیش کیا گیا تاکہ ہندو مسلم تعلقات کو خراب کیا جا سکے۔ برطانوی مورخین نے محمود کے حملوں کو ہندو مسلم اختلافات کو بڑھانے کے لیے استعمال کیا اور اسے ایک "مذہبی جنگ” کے طور پر پیش کیا۔ تھاپر کے مطابق، اس بیانیے نے بعد ازاں ہندو قوم پرستی کے جذبات کو بھی ہوا دی اور اس کے ذریعے ہندوستانی مسلمانوں کو ایک اجنبی اور حملہ آور قوت کے طور پر دکھایا گیا۔
اگر ہم محمود کے حملوں کو صرف مذہبی طور پر دیکھیں تو یہ کہنا غلط ہوگا کہ اس کا مقصد صرف اسلامی فتوحات تھا۔ دراصل، محمود غزنوی کے حملے ایک پیچیدہ سیاسی اور اقتصادی حکمت عملی کا حصہ تھے۔ وہ نہ صرف اسلامی سلطنت کے مفاد میں لڑ رہا تھا بلکہ اپنے حکومتی اقتدار کو مضبوط بنانے کے لیے بھی یہ حملے کر رہا تھا۔ اس کے حملوں میں ایک واضح اقتصادی مقصد تھا، جیسا کہ سومنات مندر کی لوٹ مار سے ظاہر ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ، محمود نے ہندوستان کی دولت اور وسائل کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کیا، جس سے اس کی سلطنت کو مزید طاقت ملی۔
محمود غزنوی کی شخصیت کو ایک لٹیرا یا فاتح کے طور پر پیش کرنا بہت مشکل ہے کیونکہ اس کے حملے صرف مذہب کی بنیاد پر نہیں تھے۔ ان حملوں میں سیاسی، اقتصادی اور مذہبی تمام پہلو شامل تھے۔ محمود کے حملوں نے جہاں ایک طرف اسلامی سلطنت کو مستحکم کیا، وہیں ہندوستان کی ثقافت اور سماجی ڈھانچے کو بھی نقصان پہنچایا۔ اس کے حملے ہندوستانی تاریخ کا ایک سیاہ باب ہیں، لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ان حملوں نے اس وقت کے سیاسی اور اقتصادی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک مخصوص حکمت عملی کے تحت کیے گئے۔
آخرکار، محمود غزنوی کی شخصیت کا تجزیہ کرتے ہوئے ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ وہ ایک پیچیدہ شخصیت تھا۔ وہ ایک فاتح تھا، لیکن اس کے حملوں کے پیچھے جو مقاصد تھے وہ صرف مذہب تک محدود نہیں تھے۔ اس نے اپنے اقتدار کو مضبوط کرنے کے لیے ہندوستان کی دولت کو لوٹا اور اپنے سیاسی مفادات کو پورا کیا۔ محمود غزنوی کو ایک لٹیرا کہنا اس کے حملوں کے ایک پہلو کو سامنے لانا ہوگا، جبکہ اس کے حکومتی مقاصد اور سلطنت کی توسیع کے عمل کو نظرانداز کرنا نہیں چاہیے۔
یہ کہنا کہ محمود غزنوی صرف ایک لٹیرا تھا، تاریخ کو ایک زاویہ سے دیکھنا ہوگا۔ وہ ایک فاتح تھا جس نے اپنے سیاسی اور اقتصادی مفادات کو ترجیح دی، اور اسی تناظر میں اس کی شخصیت کا تجزیہ کیا جانا چاہیے