5 ذوالقعدة / May 03

تھالیز: دنیا کا پہلا فلسفی جس نے سب کو حیران کر دیا
تحریر: خرم ابن شبیر

تھالیز آف ملیٹس چھٹی صدی قبل مسیح کے وہ عظیم مفکر ہیں جنہوں نے انسانیت کو عقل اور مشاہدے کے ذریعے کائنات کو سمجھنے کا راستہ دکھایا۔ ان کی زندگی، تعلیمات، اور کامیابیاں ان کے وقت سے کئی صدیوں آگے تھیں۔ انہوں نے فلسفے کو دیومالائی کہانیوں سے نکال کر منطق اور سائنسی بنیادوں پر استوار کیا۔

تھالیز کی ابتدائی زندگی

تھالیز کا تعلق یونان کے شہر ملیٹس سے تھا، جو بحیرہ ایجیئن کے کنارے واقع ایک اہم تجارتی مرکز تھا۔ ان کی پیدائش چھٹی صدی قبل مسیح کے آغاز میں ہوئی۔ ملیٹس اپنی ثقافتی اور علمی سرگرمیوں کے لیے مشہور تھا، جس نے تھالیس کی سوچ کو جلا بخشی۔ ان کی ابتدائی زندگی کے بارے میں زیادہ تفصیلات موجود نہیں ہیں، لیکن ان کا تعلق ایک معزز خاندان سے تھا، جس نے انہیں تعلیم کے مواقع فراہم کیے۔

تھالیز نے اپنے ارد گرد کی دنیا کو سمجھنے کے لیے عقلی اور سائنسی طریقوں کا استعمال شروع کیا۔ وہ اس وقت کے عام مذہبی خیالات سے ہٹ کر قدرتی مظاہر کو سمجھنے کی کوشش کرتے تھے۔ ان کا یہ رویہ انہیں دوسرے فلسفیوں اور سائنسدانوں سے ممتاز کرتا ہے۔

فلسفے کی ابتدا اور کائنات کا بنیادی عنصر

تھالیس کو دنیا کا پہلا فلسفی کہا جاتا ہے کیونکہ انہوں نے کائنات کو سمجھنے کے لیے عقل اور منطق کا استعمال کیا۔ ان کا سب سے مشہور نظریہ یہ تھا کہ کائنات کا بنیادی عنصر پانی ہے۔ ان کے مطابق، ہر چیز پانی سے بنی ہے اور اسی میں تحلیل ہو جاتی ہے۔ یہ نظریہ اس وقت کے لیے ایک انقلابی خیال تھا کیونکہ اس سے پہلے لوگ قدرتی مظاہر کو دیوتاؤں کی مرضی سے جوڑتے تھے۔

پانی کو کائنات کی بنیاد قرار دینے کے پیچھے ان کا مشاہدہ تھا کہ زندگی کا دارومدار پانی پر ہے، چاہے وہ پودے ہوں، جانور ہوں یا انسان۔ ان کا یہ نظریہ سادہ ہونے کے باوجود کائنات کو سمجھنے کی ایک اہم کوشش تھی۔

سورج گرہن کی پیش گوئی

585 قبل مسیح میں تھالیس نے سورج گرہن کی پیش گوئی کی، جو تاریخ کا ایک مشہور واقعہ ہے۔ یہ پیش گوئی ان کے فلکیاتی علم اور مشاہدے کی بنیاد پر تھی۔ جب ان کی پیش گوئی درست ثابت ہوئی، تو لوگوں نے انہیں ایک عظیم دانشور کے طور پر قبول کیا۔ اس وقت کے لوگوں کا عقیدہ تھا کہ سورج گرہن دیوتاؤں کی ناراضگی کا نتیجہ ہوتا ہے، لیکن تھالیس نے ثابت کیا کہ یہ ایک قدرتی مظہر ہے جسے سائنسی بنیاد پر سمجھا جا سکتا ہے۔

ریاضی اور جیومیٹری میں خدمات

ریاضی اور جیومیٹری کے میدان میں تھالیس کی خدمات قابل ذکر ہیں۔ انہوں نے جیومیٹری کے اصول وضع کیے جو آج بھی تدریس میں استعمال ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر:

انہوں نے دائرے کے قطر کے بارے میں اصول پیش کیا کہ یہ دائرے کو دو برابر حصوں میں تقسیم کرتا ہے۔

انہوں نے مثلث کے زاویوں کے بارے میں بھی اہم اصول وضع کیے۔

کہا جاتا ہے کہ تھالیس نے مصر کا سفر کیا اور وہاں کے ماہرین سے جیومیٹری سیکھی۔ اہرامِ مصر کی اونچائی ناپنے کے لیے انہوں نے سایوں کے تناسب کا استعمال کیا، جو ان کی عملی دانشمندی کا ثبوت ہے۔

زیتون کی فصل کا واقعہ

ایک مشہور واقعہ یہ ہے کہ تھالیس کو بعض لوگ تنقید کا نشانہ بناتے تھے کہ فلسفہ عملی زندگی میں بے فائدہ ہے۔ انہوں نے اپنی دانشمندی سے زیتون کی فصل پر سرمایہ کاری کی اور آنے والے سال میں زیتون کے پریس کرائے پر لے لیے۔ جب زیتون کی فصل بہت اچھی ہوئی، تو پریس کی مانگ بڑھ گئی اور انہوں نے بھاری منافع کمایا۔ یہ واقعہ ان کی عملی دانشمندی اور مستقبل بینی کی صلاحیت کا مظہر ہے۔

کنویں میں گرنے کا واقعہ

ایک دلچسپ واقعہ یہ بھی ہے کہ تھالیس ایک رات آسمان پر ستاروں کا مشاہدہ کرتے ہوئے ایک کنویں میں گر گئے۔ ایک عورت نے ان کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا کہ جو شخص زمین پر موجود چیزوں کو نہیں دیکھ سکتا، وہ آسمان کی باتیں کیسے سمجھ سکتا ہے۔ یہ واقعہ فلسفیوں کی اس جستجو کو ظاہر کرتا ہے جو انہیں دنیا کی مادی حقیقتوں سے الگ کر دیتی ہے۔

تعلیمات اور اثرات

تھالیس نے فلسفہ اور سائنس کی بنیاد رکھی اور آنے والے فلسفیوں کو ایک نیا راستہ دکھایا۔ ان کی تعلیمات نے سقراط، افلاطون، اور ارسطو جیسے عظیم فلسفیوں کو متاثر کیا۔ ان کے خیالات نے دیومالائی تصورات کو ختم کر کے دنیا کو عقل اور منطق کی روشنی میں سمجھنے کی طرف مائل کیا۔

 

تھالیس کی میراث

تھالیس آف ملیٹس ایک ایسی شخصیت ہیں جنہوں نے دنیا کو سکھایا کہ مشاہدہ، عقل، اور تجربہ کے ذریعے کائنات کے رازوں کو سمجھا جا سکتا ہے۔ ان کی خدمات سائنس، فلسفہ، اور ریاضی کے میدان میں آج بھی یادگار ہیں۔ ان کی زندگی کے واقعات ہمیں یہ سکھاتے ہیں کہ علم اور دانشمندی کے ذریعے نہ صرف دنیا کو سمجھا جا سکتا ہے بلکہ اسے بہتر بھی بنایا جا سکتا ہے۔

تھالیس کی زندگی ایک مشعلِ راہ ہے جو ہمیں تحقیق، جستجو، اور عقلی سوچ کی اہمیت کا درس دیتی ہے۔ وہ ایک فلسفی، سائنسدان، اور ریاضی دان کے طور پر ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔