67
چترال میں سیاسی تبدلی کے خوش آئند آغاز
اگر یہ کہا جائے کہ پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا کا پہاڑی ضلع چترال نہ صرف قدرتی حسن سے مالا مال ہے بلکہ یہاں کے لوگ شائد اس خطے سے بھی زیادہ روشن اور حسین ہیں، تو بے جا نہ ہوگا . ان لوگوں کی پیشانی پر نقش ہے کہ یہ امن کی جا کے…
اگر یہ کہا جائے کہ پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا کا پہاڑی ضلع چترال نہ صرف قدرتی حسن سے مالا مال ہے بلکہ یہاں کے لوگ شائد اس خطے سے بھی زیادہ روشن اور حسین ہیں، تو بے جا نہ ہوگا . ان لوگوں کی پیشانی پر نقش ہے کہ یہ امن کی جا کے باسی ہیں اور یہاں بسنے والے حور و غلمان سے کم نہیں ہیں. انکی مہمان نوازی، انسان دوستی اور کسی بھی فرقہ، مذھب اور سیاسی وابستگی سے بالاتر ہو کر محبت کرنے کی ادا جہاں انکی پہچان ہے، وہاں کبھی کبھی انکی کمزوری بھی بن جاتی ہے. ان سچے اور پیارے لوگوں سے فائدہ اٹھانے والے وہ نا عاقبت اندیش سیاسی رکن، نمائندے اور لیڈران وہ ہیں، جنہوں نے ہر مرتبہ انکے مفادات پر ضرب لگائی. کبھی کھوکھلے نعرے بیچے، کبھی چترالیوں کو خاندان کہ کر جذباتی منجن فروشی کی تو کبھی جھوٹ کے لبادے میں حق کو چھپا کر دھوکہ دیا. یہ لوگ اسی علاقہ سے منتخب ہویے، نعرے بیچے اور بلاخر اپنے وعدوں سے چشم پوشی کر کے چلتے بنے. ان موسمی بٹیروں کی یہ فصل نہ صرف بیرونی بلکہ مقامی حملہ آواروں کی صفوں سے بھی لیس رہی. شاید طاقت اور دولت کے نشے نے انسے مٹی، محبت اور خلوص کی چاشنی چھین لی، اور انہیں اندھوں بہروں میں لا کھڑا کیا؟
مگر پھر نقصان کسکا ہوا جناب؟
بلکل صحیح، نقصان ہوا اس وادی کے باسیوں کا، یہاں کے ان لوگوں کا جنہوں نے اپنی محبت دان کی اور بدلے میں غربت، بد حالی، صحت و تعلیم کی ناقص سہولیات اور بے روزگاری حاصل کی.
جس طرح روشنی نمودارہو کر ظلمتوں کا گہرا پہرہ توڑ دیتی ہے ، ویسے ہی زندگی میں اپنے آپ کو بدلنے کا موقع ضرور ملتا ہے. یہ قانون قدرت ہے کہ جب جب اپنے پتے ہوا دیتے دکھائی دیتے ہیں، تب تب امید کا مسیحا کہیں قریب موجود ہوتا ہے.
اس مرتبہ شائد آٹھ فروری دو ہزار چوبیس شاید چترال کی تاریخ کا ایک عظیم موڑ ثابت ہونے جا رہا ہے. اس دن قومی اسمبلی کی نشت پر لڑتے سیاسی بیوپاریوں کے درمیان ایک ایسا مرد مجاہد بھی استدراجی قوتوں سے نبرد آزما ہے کہ جسکی کوئی مثال نہیں ملتی. یہ کتاب کے انتخابی نشان سے -NA1 سے ان سیاسسی لوٹوں، استحصالیوں کو ببانگ دھل للکار رہا ہے، جنکا سیاسی کیریئر ہمیشہ وفاداریاں تبدیل کرنے سے منسوب رہا. ہم بات کر رہے ہیں ال حاج محمّد طلحہ محمود کی.
طلحہ محمود کو جے یو آئی نے اس دفعہ پھر ٹکٹ دیا کہ اس جیسا خاندانی اور سچا کارکن پاکستان کی جملہ تاریخ میں کبھی پیدا نہیں ہوا. کیوں نہ ہو کہ اسکا ماضی حال مستقبل کھلی کتاب ہے. لگ بگھ اٹھارہ سال حکومتوں کا حصہ رہا مگر اپنے مفاد کے لیے خزانے سے ایک دھیلے کے روادار نہ ہویے.
ہزارہ ڈویژن کا یہ سپوت، محمّد طلحہ محمود، چترال کی دھڑکنوں کے ساتھ ہم آہنگ ہے، اسکا یہاں گھر ہے، وہ گھر اینٹ مٹی گارے سے نہیں، محبت اور خلوص کی چاشنی اور شیرینی سے مزین ہے.
دنیا بھر کے وسائل، کاروبار اور بہترین معاشی حالت رکھنے کے باوجود اس درویش صفت شخص نے اپنی ذات سے ہمیشہ انسانوں کے مفاد کو بالا رکھا… اپنی ذاتی جاییداد، فکٹریاں اور ادارے لوگوں کی بہبود کے لیے وقف کر رکھے ہیں. اپنی آمدن کا ایک بڑا حصہ نادار، بیوہ خواتین، یتیموں اور غربا کی فلاح کے لیے خرچ کرتے ہیں .
انکی انسان دوستی کے گواہ وہ سب فلاحی ادارے، میڈیکل کیمپ اور وومن ایمپوویرمنٹ سنٹرز ہیں جہاں سے لاکھوں لوگ اپنی زندگیاں منور کر رہے ہیں.
ایک مظبوط سیاسی و معاشی پس منظر سے ہونے کی وجہ سے آپ کے خمیر میں لالچ اور منافقت جیسی بیماریوں کا کوئی شائبہ تک نہیں. آپکے ایک ابرو چشم پر دنیا بھر کے فلاحی ادارے اور ڈونر ایجنسیز بھاری رقوم خرچ کرنے کے لیے تیار ہو جاتی ہیں کیونکہ انھیں طلحہ محمود کی ذات پر بھروسہ ہے.
جے یو آئی سے قومی اسیمبلی کی نشت کے لیے منتظر اس جانباز کا مقصد چترال کو اوج ثریا تک پہنچانا ہے. انکا منشور ہے کہ اس تاریخی خطہ کے انفرا اسٹرکچر کو بین ال اقوامی معیار کے مطابق ڈھالا جایے. یہاں فرد واحد پر انویسٹمنٹ ہو، لوگوں کے حالات تبدیل ہوں، نوکریاں اور تعلیم اعلیٰ اور معیاری ہوں اور خوش حالی کا وہ سورج طلوع ہو جو استحصالی قوتوں کی کالک سے پھر کبھی آلودہ نہ ہو.
چترال کے عوام پیارے لوگ ہیں، دل اور آنکھیں بچھا دیتے ہیں. تب بھی ایسا کیا جب پرویز مشرف محظ چترال میں کامیابی سمیٹ پایے، جبکہ پورے پاکستان میں انھیں شکست ہوئی. اس دن بھی ایسا ہوا جب نصرت بھٹو کو یہاں سے الیکشن لڑوایا گیا اور اس غیر عوام نے انھیں بھی آمنا و صدقنا کہا.
اس مرتبہ محمّد طلحہ محمود آپ کے درمیان منتظر ہے. اس تاریخی فتح کا، جو دراصل چترال کی فتح ہوگی. وہ ارادہ رکھتا ہے کہ یہاں پر آیندہ ہر قسم کی سیاسی شعبدہ بازی اور جعلسازی کا قصہ ھمیشہ ہمیشہ کے لیے دفن کر دے. وہ یہاں کی تاریخ کا حصہ بننے نہیں آیا بلکہ یہاں کی تاریخ بدلنے آیا ہے.
آیے اپنے چترالی ہونے کا ثبوت دیں، طلحہ محمود کے انتخابی نشان کتاب پر مہر ثبت کریں تاکہ پوری دنیا کھلی آنکھوں سے اس خطے کی خوش حالی کو دیکھ سکے.
تحریر
جاوید مغل