14 جُمادى الأولى / November 05

مدارس میں تربیت کا بڑھتا فقدان

ضیاء الصمد عثمانی

مدارس دینیہ محض سیکھنے اور سکھانے کی جگہ نہیں ہوتے۔ یہ وہ مقدس مقامات ہیں جہاں طفل مکتب کے ذہن و قلب کو تراشا جاتا ہے ، اسے دین کی خدمت، اسلام کی ترویج اور اُمت کی رہنمائی کے لیے تیار کیا جاتا ہے۔ یہاں صرف الفاظ نہیں پڑھائے جاتے بلکہ افکار، کردار اور اقدار کی آبیاری کی جاتی ہے۔
مدرسہ کی بنیاد تین اہم چیزوں پر مشتمل ہے جن میں نظامِ تعلیم، نظامِ تربیت اور تعمیری وجود شامل ہیں۔
اگر ان میں سے کوئی ایک بھی منفی ہو جائے، تو مدرسہ اپنے اصل مقصد سے محروم ہو جاتا ہے۔
بدقسمتی سے آج بہت سے مدارس کا قیام صرف دینی مدارس کی فہرست میں اضافہ بن کر رہ گیا ہے۔ نہ تعلیم کا واضح نظام اور نہ ہی تربیت کا مؤثر طریقہ رائج ہے مزید براں ذمہ دار افراد کی صلاحیت و سوجھ بوجھ بھی مانند پڑتی جا رہی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ جو افراد تربیت پر مامور ہیں ، وہ خود تربیت کے محتاج ہوتے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ مدارس کا نظامِ تعلیم اکابر علماء کی سرپرستی میں مضبوط بنیادوں پر قائم ہے۔ مدارس کا تعلق کسی بھی نصابی بورڈ سے ہو نصاب کی سطح پر بہتری نظر آتی ہے۔ لیکن نظامِ تربیت کا حال اکثر مدارس میں افسوسناک حد تک کمزور ہے۔
زمانہ بدلا ہے ، نفسیات بدلی ہیں اور تربیت کے تقاضے بھی بدل چکے ہیں۔ پہلے وقتوں میں سختی برداشت کر لی جاتی تھی مگر اب حالات مختلف ہیں۔ شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا کاندھلوی رحمہ اللہ اپنی آپ بیتی میں اپنے والدِ محترم کی سخت تربیت کا ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ ”یہ اُس زمانے کی تربیت تھی جب لوگوں میں برداشت تھی آج وہ برداشت باقی نہیں رہی”۔
اگر کئی عشرے قبل رویوں میں یہ تبدیلی واقع ہو چکی تھی تو موجودہ حالات کیا ہوں گے یہ سمجھنا مشکل نہیں۔
آج کے بچے جذباتی طور پر زیادہ حساس، سوال کرنے والے اور اپنے وجود کا شعور رکھنے والے ہیں۔ ان سے بات منوانے کا طریقہ بدل چکا ہے۔ اصلاح کے لیے پیار ، تدریج ، فہمائش ، اور شفقت درکار ہے ، نہ کہ غصہ اور مار پیٹ کا طریقہ اختیار کیا جائے۔
لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ ہم اب بھی مزاج بدلنے کو تیار نہیں ، نہ تربیت کا مؤثر نظام تشکیل دینے پر آمادہ ہیں۔ اور جب بھی کوئی واقعہ منظر عام پر آتا ہے تو یہ کہہ کر صرفِ نظر کر لی جاتی ہے کہ یہ کسی ایک مدرسے یا فرد کا ذاتی فعل ہے مدارس کی بدنامی نہ کی جائے۔
لیکن سچ یہ ہے کہ ہم خود مدارس کی بدنامی کا سبب بن رہے ہیں۔ ہمارے غیر سنجیدہ رویے ، غصے پر مبنی تربیتی انداز ، اور غیر مہذب سلوک مدارس اور دین دشمن عناصر کو ہر روز ایک نیا جواز دیتے ہیں جو دین اور دینی اداروں کے خلاف موقع ڈھونڈتے ہیں۔
یاد رکھیے! امام بخاری رحمہ اللہ نے دریا میں اپنے ذاتی پیسے صرف اس لیے پھینک دیے تھے کہ کہیں ان پر چوری کا الزام نہ آ جائے ، جس سے دین کی ساکھ متاثر ہو۔ اور ہم؟ ہم روزانہ اپنے رویوں سے دین کی ساکھ کو نقصان پہنچاتے ہیں ، اور پھر "سازش” کا لیبل چسپاں کر کے خود کو بری الذمہ سمجھ لیتے ہیں۔
بطور معلم ، عالم ، مربی اور مذہبی راہنما لازم ہے کہ ارباب حل و عقد نظامِ تربیت کو ازسرنو منظم کریں۔ نصیحت ، شفقت ، تدریج ، ڈانٹ ، اور آخر میں ، اگر ضرورت پڑے ، تو اخراج کا باوقار راستہ اختیار کر لیں۔ اگر ہم ہر معمولی خلاف ورزی پر مار پٹائی کو ترجیح دیں ، تو پھر اخراج کا قانون کس مرض کی دوا ہے؟
مدرسہ میں فقط سبق سیکھنا سکھانا کافی نہیں ، بلکہ عملی تربیت ، نفسیاتی فہم ، اور بچوں کی شخصیت سازی کی ضرورت ہے۔ اب لازم ہے کہ مدارس میں بچوں کو دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ ہنر اور فنی تعلیم کا بھی سلسلہ شروع کیا جائے۔ ہم نصابی سرگرمیوں کے ذریعے طلبہ کے اعتماد ، تحمل اور سماجی شعور کو پروان چڑھایا جائے۔ جامعہ دارالعلوم کراچی ، جامعہ عثمانیہ پشاور، بیت السلام اور جامعہ اسلام آباد جیسے مدارس کو رول ماڈل بنا کر دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ عصری تعلیم کے لیے راستے ہموار کئے جائیں ۔
یہ تو قانون ہے کہ جس چیز کی کثرت ہو جائے وہ اپنا معیار کھو بیٹھتی ہے۔ یہی حال دینی مدارس کا ہے۔ اگر ہم صرف تعداد بڑھاتے گئے ، اور معیار کو نظر انداز کرتے رہے ، تو نتیجہ یہی نکلے گا: وہ طلبہ جو معاشرے کا بوجھ بننے کی بجائے اس کا ستون بن سکتے تھے ، وہ جزوِ معطل بن کر رہ جائیں گے۔
اگر ہم اب بھی نہ جاگے ، تو وہ وقت دور نہیں جب ہم مدارس کے دفاع میں نہیں بلکہ مدارس کے وجود کے حق میں صفائیاں دیتے پھریں گے ۔
شاید کہ اُتر جائے تیرے دل میں میری بات…