24 ذوالحجة / June 20

تحریر: خرم ابن شبیر

18 جون 2025 کا دن صرف واشنگٹن کی سفارتی تاریخ کے لیے اہم نہیں تھا بلکہ یہ دن پاکستان کی عسکری اور خارجہ پالیسی میں ایک نئی سمت کی علامت بن کر ابھرا۔ جب فیلڈ مارشل عاصم منیر، پاکستان کے طاقتور ترین ادارے کے سربراہ کی حیثیت سے وائٹ ہاؤس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ بیٹھے، تو دنیا نے یہ ملاقات محض ایک سفارتی تصویر کے طور پر نہیں، بلکہ جنوبی ایشیا میں طاقت کے نئے توازن کے اعلان کے طور پر دیکھی۔

اس ملاقات سے ایک سوال پوری شدت کے ساتھ اٹھا:
کیا پاکستان اب دوبارہ امریکی کیمپ کی طرف جا رہا ہے؟

لیکن اس سوال سے پہلے ایک اور سوال اہم ہے:
کیا یہ پہلا موقع ہے جب امریکہ نے پاکستان کی قیادت کو بلایا؟ کیا یہ پہلا لمحہ ہے جب پاکستان امریکہ کے ایوانِ اقتدار میں داخل ہوا؟

جواب یہ ہے کہ نہیں، یہ ایک تسلسل ہے — ایک طویل اور پیچیدہ تاریخ کا جو کئی بار دہرائی گئی، کبھی اعزاز بن کر اور کبھی ندامت کا باعث۔

تو آئیے! پاکستان اور امریکہ کے ان تاریخی تعلقات کی جھلک دیکھتے ہیں۔ کب ہم گئے، کب وہ آئے، کیا ملا اور کیا کھویا — سب کچھ، بے نقاب۔

### 🇺🇸 جب امریکہ خود آیا — صدور کے دورہ پاکستان

**1959 میں صدر ڈوائٹ ڈی آئزن ہاور** نے پاکستان کا تاریخی دورہ کیا۔ جنرل ایوب خان کے دور حکومت میں وہ کراچی، لاہور اور پشاور بھی گئے۔ ان کے استقبال کی شان و شوکت میں سرد جنگ کی پالیسی صاف جھلکتی تھی۔ پاکستان کو مغربی دفاعی اتحادوں SEATO اور CENTO کا حصہ بنایا گیا۔ اس دورے سے پاکستان کو اسلحہ، فوجی تربیت اور عالمی سطح پر تزویراتی شراکت داری تو ملی، مگر سوویت یونین سے تعلقات ہمیشہ کے لیے منقطع ہو گئے۔

**1969 میں صدر رچرڈ نکسن** یحییٰ خان کے ساتھ ملاقات کے لیے پاکستان پہنچے۔ یہ دورہ بظاہر رسمی تھا مگر درحقیقت چین اور امریکہ کے درمیان مستقبل کی خفیہ ڈپلومیسی کی بنیاد تھا، جس کا سہرا بھی پاکستان کو دیا گیا۔ مگر یہی امریکہ 1971 کی جنگ میں بھارت کا ساتھ دیتا دکھائی دیا، اور پاکستان کا مشرقی بازو الگ ہو گیا۔

**2000 میں صدر بل کلنٹن** اسلام آباد آئے۔ جنرل مشرف کا مارشل لا لگ چکا تھا، جمہوریت دب چکی تھی۔ کلنٹن نے پانچ گھنٹوں پر مشتمل مختصر مگر سخت دورہ کیا۔ وہ عوام سے مخاطب ہوئے، اور جمہوریت، دہشتگردی اور کشمیر پر کھلے الفاظ میں پاکستان کو مشورہ دیتے چلے گئے۔

### 🇵🇰 *جب پاکستان گیا — واشنگٹن کی راہداریوں میں قدم*

**1950 میں لیاقت علی خان** نے سوویت یونین کی دعوت مسترد کی اور امریکہ کا انتخاب کیا۔ ان کے اس فیصلے کو "Tilt Towards West” کا نام دیا گیا۔ یہ ایک تاریخی انتخاب تھا، جس کے فوائد بھی ملے اور قیمت بھی۔

**ایوب خان** نے 1961 میں جان ایف کینیڈی سے ملاقات کی۔ امریکی صدر نے ایوب کو ایک جدید مسلمان لیڈر کے طور پر پیش کیا، مگر بعد میں جب 1965 کی جنگ لڑی گئی تو یہی امریکہ ہتھیار دینے سے انکار کر گیا۔ یہ پہلا دھوکہ تھا۔

**ذوالفقار علی بھٹو** نے 1973 میں نکسن اور بعد ازاں فورڈ سے ملاقات کی، مگر جوہری پروگرام پر اختلافات نے تعلقات کو سخت کر دیا۔ بھٹو نے صاف کہا کہ ہم اپنی سلامتی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ شاید یہی "ضد” ان کے انجام کی ایک وجہ بنی۔

**جنرل ضیاء الحق** نے ریگن سے کئی ملاقاتیں کیں۔ افغان جہاد میں پاکستان امریکہ کا فرنٹ لائن اتحادی بن گیا۔ اربوں ڈالر آئے، اسلحہ آیا، مگر اس کے ساتھ ہی ہیروئن، کلاشنکوف، مہاجرین، اور جہادی کلچر بھی آیا — جو آج تک ہماری جان نہیں چھوڑ رہا۔

**نواز شریف** 1999 میں کلنٹن سے ملے، کارگل جنگ کے دوران۔ کلنٹن نے فوجی انخلاء پر زور دیا، اور نواز شریف کا وزن کم، فوج کا بڑھ گیا۔ چند ماہ بعد مارشل لا لگ گیا۔

**پرویز مشرف** نے جارج بش کے ساتھ 9/11 کے بعد تعلقات مضبوط کیے۔ پاکستان کو "Non-NATO ally” کا درجہ ملا، مگر ساتھ ہی ڈرون حملے، مذہبی شدت پسندی، اور قومی خود مختاری کی پسپائی بھی ملی۔

**عمران خان** 2019 میں ٹرمپ سے ملے۔ دورہ شاندار تھا، مگر نتیجہ محدود۔ افغانستان سے انخلا پر گفتگو ہوئی، مگر کشمیر پر خاموشی رہی۔

### 🇵🇰 **2025 — جب راولپنڈی براہِ راست پہنچا وائٹ ہاؤس**

یہ پہلا موقع ہے کہ ایک پاکستانی آرمی چیف نے نہ صرف امریکی صدر سے ملاقات کی، بلکہ اسے وائٹ ہاؤس میں خصوصی ظہرانہ دیا گیا۔ یہ صرف ایک پروٹوکول نہیں تھا — یہ ایک واضح اشارہ تھا کہ اب امریکہ کی ترجیح اسلام آباد نہیں، راولپنڈی ہے۔

اس ملاقات میں ایران، بھارت، افغانستان اور چین پر کھلے الفاظ میں بات ہوئی۔ پاکستان کو خطے کی نئی صف بندی میں ایک بار پھر کلیدی کھلاڑی سمجھا جا رہا ہے۔

### ✅ **کیا کچھ ملا؟**

ان دہائیوں پر محیط تعلقات سے پاکستان کو بہت کچھ حاصل ہوا۔ فوجی امداد، اقتصادی تعاون، تعلیمی وظائف، عالمی سطح پر شناخت، جدید اسلحہ، اور سٹریٹیجک اہمیت — یہ سب وہ فوائد تھے جنہوں نے پاکستان کو بارہا عالمی صفوں میں کھڑا کیا۔ امریکہ کے ساتھ قربت نے دنیا کو پاکستان کی اہمیت باور کروائی، اور یہی قربت عالمی مذاکرات میں ہمارے لیے کئی دروازے کھولتی رہی۔

### ❌ **اور کیا کچھ کھویا؟**

لیکن ان فوائد کی قیمت بھی بہت بھاری چکائی گئی۔ امریکہ کے ہر مفاد کی قیمت پاکستان نے اپنے مفاد کی قربانی سے دی۔ کبھی سرد جنگ میں، کبھی افغان جنگ میں، کبھی دہشتگردی کے خلاف جنگ میں، ہم نے اپنی خود مختاری، داخلی سلامتی، مذہبی ہم آہنگی اور معیشت کو دائو پر لگایا۔

جہاں امداد ملی، وہاں پابندیاں بھی ساتھ آئیں۔ جہاں تعلقات بڑھے، وہاں اعتماد کم ہوا۔ اور سب سے بڑا نقصان — ایک **خودمختار خارجہ پالیسی کا فقدان** رہا۔

### 🔚 **اختتامی کلمات: آگے کا راستہ کہاں سے گزرے گا؟**

آج جب عاصم منیر امریکی صدر کے ساتھ بیٹھتے ہیں تو سوال صرف یہ نہیں ہوتا کہ وہ کیا لے کر آئیں گے۔ سوال یہ بھی ہوتا ہے کہ کیا ہم نے ماضی سے کچھ سیکھا؟ کیا ہم اپنے قومی مفاد کو اب خود طے کریں گے؟ یا پھر حسبِ روایت، عالمی طاقتوں کے مفاد کے مطابق جھک جائیں گے؟

وقت بدل چکا ہے۔ دنیا یک قطبی نہیں رہی۔ پاکستان کے پاس اب صرف ایک آپشن نہیں، بلکہ کئی راستے ہیں۔
بس فیصلہ ہمیں کرنا ہے — **واشنگٹن کے اشارے پر چلنا ہے، یا اپنے قدموں پر کھڑا ہونا ہے؟**