24 ذوالحجة / June 20

تحریر: خرم ابن شبیر

ہمارے نبی ﷺ نے فرمایا: "جو اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہے، وہ اچھی بات کہے یا خاموش رہے۔”
کاش یہ فرمانِ نبوی صرف دیواروں پر آویزاں نہ ہوتا، دلوں میں بھی اتر جاتا۔ کاش یہ بات صرف واعظ کی زبان سے نہ سنائی جاتی، قوم کے ضمیر میں گونجتی۔ آج اگر ہم زبان کو لگام دینے، تحریر کو ذمہ داری کا پابند بنانے، اور خبر کو تحقیق کا لباس پہنانے لگیں تو شاید معاشرہ نفرت، جھوٹ، اور انتشار سے بچ جائے۔

میں حیران ہوتا ہوں جب دیکھتا ہوں کہ کوئی بچہ قتل ہوتا ہے، کوئی عورت مظلوم بنتی ہے، یا کوئی سیاستدان زیرِ تنقید آتا ہے تو بغیر تحقیق، بغیر تصدیق، سوشل میڈیا پر سیلاب آ جاتا ہے۔ ویڈیوز، تصاویر، بیانات — سب کے سب جھوٹ کے طوفان میں بہہ جاتے ہیں۔ اور افسوسناک پہلو یہ ہے کہ اس طوفان کے پیچھے اکثر وہ لوگ ہوتے ہیں جو خود کو "محبِ وطن” اور "مومن” کہتے ہیں۔

پاکستانی معاشرہ اس وقت سنگین نفسیاتی بحران کا شکار ہے۔ ہمیں "بریکنگ نیوز” کا بخار ہے، اور "سب سے پہلے” کی دوڑ نے ہماری عقل چھین لی ہے۔ کوئی واقعہ پیش آئے یا نہ آئے، ہم اس پر رائے دینے، الزام لگانے، اور وائرل کرنے میں لمحہ نہیں لگاتے۔ یہ بیماری اب صحافت سے نکل کر عام فرد کی جیب تک آ گئی ہے۔ ہر موبائل اب کیمرہ بھی ہے اور نیوز چینل بھی۔

میں یہ کالم اپنے قارئین سے اس امید کے ساتھ لکھ رہا ہوں کہ شاید کوئی ایک دل ایسا ہو جس میں رسول اللہ ﷺ کی اس ہدایت کی روشنی جاگ اٹھے۔
اگر تمہارے پاس تصدیق شدہ بات ہے، تو اس کو پھیلاؤ۔ اگر نہیں، تو خاموشی اختیار کرو — کیونکہ خاموشی بعض اوقات صداقت سے زیادہ پراثر ہوتی ہے۔

کیا ہم نے کبھی سوچا کہ کسی جھوٹی خبر سے کسی کا خاندان برباد ہو سکتا ہے؟ کسی غلط ویڈیو سے کسی کی عزت مٹی میں مل سکتی ہے؟ کسی بے بنیاد الزام سے کوئی بے قصور جیل جا سکتا ہے؟ کیا ہم ایسے مجرم نہیں جو انگلیاں نہیں، زبانیں چلاتے ہیں اور خون کے پیاسے بن جاتے ہیں؟

قرآن کہتا ہے: "جب کوئی فاسق تمہارے پاس خبر لائے، تو تحقیق کرو”۔ مگر ہم تحقیق کو وقت کا ضیاع سمجھتے ہیں اور جذبات کو دلیل کا نعم البدل۔

میرے عزیزو!
نبی کا حکم ہے: "یا تو اچھی بات کہو، یا خاموش رہو” — اور آج کے دور میں خاموشی، جہاد ہے۔ تحقیق کے بغیر ہر لفظ، ایک زہر آلود تیر ہے جو کسی معصوم کی طرف جا سکتا ہے۔
لہٰذا، اگر ہم خود کو واقعی مسلمان، اور پاکستانی کہتے ہیں تو ہمیں اپنے الفاظ کی زمہ داری لینا ہوگی۔ سچ لکھنا ہوگا، یا کچھ نہ لکھنا ہوگا۔

اختتام اس دعا کے ساتھ کہ اللہ ہمیں زبان کی، قلم کی، اور کلک کی حرمت سکھا دے۔
کیونکہ آج اگر ہم خاموش نہ ہوئے، تو کل کوئی ہماری سچائی بھی سننے والا نہ ہوگا۔