1 ذوالقعدة / April 29

میاں افتخار حسین کا الزام: ’پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت اور وفاق میں خفیہ گٹھ جوڑ ہے‘

عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) خیبر پختونخوا کے صدر میاں افتخار حسین نے الزام عائد کیا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی صوبائی حکومت اور وفاقی حکومت بظاہر ایک دوسرے سے اختلافات کا اظہار کرتے ہیں، لیکن درحقیقت دونوں ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگ ہیں۔

پشاور میں ایک پریس کانفرنس کے دوران گفتگو کرتے ہوئے میاں افتخار حسین نے کہا کہ "پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت روز وفاقی حکومت پر تنقید کرتی ہے، لیکن حقیقت میں یہ اندر سے ایک دوسرے کے ساتھ ملے ہوئے ہیں۔”

مائنز اینڈ منرل ایکٹ 2025ء کو مسترد کرنے کا اعلان

اے این پی کے رہنما نے مجوزہ مائنز اینڈ منرل ایکٹ 2025 کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اسے مکمل طور پر مسترد کر دیا۔ ان کے مطابق اس قانون کا مسودہ ایک امریکی کنسلٹنٹ نے تیار کیا ہے، جو کہ ملکی خودمختاری اور صوبائی حقوق کے منافی ہے۔

"جب 2017 کا مائنز اینڈ منرل بل پہلے سے موجود ہے تو ایک نیا قانون بنانے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ ہم نے اعتراضات بھی کیے لیکن اس کے باوجود کابینہ نے بل کے ڈرافٹ کی منظوری دے دی۔”

18ویں ترمیم پر تنقید اور تحفظات

میاں افتخار حسین نے الزام عائد کیا کہ جنرل قمر جاوید باجوہ کے دور سے 18ویں آئینی ترمیم کو رول بیک کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ 18ویں ترمیم کے تحت قدرتی وسائل پر صوبوں کا حق تسلیم کیا گیا تھا اور اس سے پیچھے ہٹنا ناقابلِ قبول ہے۔

"ہم نے دہشت گردوں سے اس لیے جنگ کی کہ وہ ہمارے وسائل چھین رہے تھے، اب ہم کسی صورت نہیں مانیں گے کہ وفاق ان وسائل پر کنٹرول حاصل کرے۔”

پی ٹی آئی پر سیاسی بارگیننگ کا الزام

میاں افتخار نے دعویٰ کیا کہ مجوزہ بل کو پی ٹی آئی کی قیادت کی رہائی سے مشروط کیا جا رہا ہے۔ اُن کے مطابق یہ بل دراصل سیاسی بارگیننگ کا ذریعہ بن چکا ہے۔

"یہ بل پی ٹی آئی اپنے مفادات کے لیے استعمال کر رہی ہے، لیکن ہم پختونوں کے وسائل پر کوئی سودے بازی قبول نہیں کریں گے۔ اگر بل پاس ہوا تو اسے عدالت میں چیلنج کریں گے اور سڑکوں پر بھی احتجاج ہو گا۔”

لیز کی تفصیلات اور شفافیت کا مطالبہ

انہوں نے صوبے میں لیز کے حوالے سے شفافیت کی کمی پر سوالات اٹھائے۔ "2013 سے اب تک لیز کے نام پر صوبے کو کیا ملا؟ یہ تفصیلات عوام کے سامنے لائی جائیں۔ لارج اسکیل لیز کے لیے 50 کروڑ روپے سیکیورٹی کی شرط کہاں کا انصاف ہے؟”