98
غیر ملکی اہلکاروں کو رشوت دینے پر امریکیوں کیخلاف کارروائی نہیں ہوگی، ٹرمپ
ٹرمپ کا متنازعہ حکم: امریکی کمپنیوں کو غیر ملکی اہلکاروں کو رشوت دینے کی کھلی چھوٹ واشنگٹن، 11 فروری 2025 – سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک متنازعہ حکم نامے پر دستخط کیے ہیں، جس کے تحت امریکی کمپنیوں اور شہریوں کو غیر ملکی حکومتوں کے اہلکاروں کو رشوت دینے پر کسی قانونی کارروائی…
ٹرمپ کا متنازعہ حکم: امریکی کمپنیوں کو غیر ملکی اہلکاروں کو رشوت دینے کی کھلی چھوٹ
واشنگٹن، 11 فروری 2025 – سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک متنازعہ حکم نامے پر دستخط کیے ہیں، جس کے تحت امریکی کمپنیوں اور شہریوں کو غیر ملکی حکومتوں کے اہلکاروں کو رشوت دینے پر کسی قانونی کارروائی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ اس فیصلے کو بین الاقوامی سطح پر بدعنوانی کو فروغ دینے اور اینٹی کرپشن قوانین کو کمزور کرنے کے مترادف قرار دیا جا رہا ہے۔
رشوت پر پابندی ختم؟
ٹرمپ کے حکم نامے کے مطابق امریکی اٹارنی جنرل پام بونڈی کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ 1934 کے "فارن کرپٹ پریکٹسز ایکٹ” (FCPA) پر عمل درآمد کو فوری طور پر معطل کر دیں، جب تک کہ اس حوالے سے نئے رہنما اصول جاری نہیں ہو جاتے۔
ٹرمپ نے اپنے بیان میں دعویٰ کیا کہ "امریکا کے اینٹی کرپشن اقدامات ہماری معیشت کے لیے تباہ کن تھے، کیونکہ اس قانون کے باعث امریکی کاروبار کے لیے بیرون ملک ٹھیکے حاصل کرنا انتہائی مشکل ہو گیا تھا۔”
کاروبار میں رشوت معمول کی بات؟
ٹرمپ نے اس تاثر کو تقویت دی کہ عالمی سطح پر کاروباری معاہدے حاصل کرنے کے لیے رشوت دینا ایک عام روایت ہے۔ ان کے بقول، "دنیا کے کئی ممالک میں رشوت ایک عام تجارتی عمل سمجھا جاتا ہے، اور اس پر سخت پابندی امریکا کے معاشی مفادات کے خلاف جاتی ہے۔”
محکمہ انصاف کی کارروائیاں معطل
ٹرمپ کے حکم نامے کے تحت امریکی محکمہ انصاف اب ان کمپنیوں یا افراد کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرے گا جو بیرون ملک معاہدے حاصل کرنے کے لیے غیر ملکی حکام کو رشوت دیتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکی کارپوریشنز کو بین الاقوامی سطح پر کاروباری سودے حاصل کرنے کے لیے غیر قانونی ذرائع استعمال کرنے کی مکمل آزادی حاصل ہو گئی ہے۔
برطانوی میڈیا کے مطابق، اس حکم نامے کے بعد ماضی اور حال میں کیے گئے تمام اینٹی کرپشن اقدامات کا محکمہ انصاف از سر نو جائزہ لے گا، جس سے بدعنوانی کے انسداد کے قوانین کو مزید کمزور کرنے کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔
بین الاقوامی ردعمل
ٹرمپ کے اس اقدام پر بین الاقوامی سطح پر شدید ردعمل سامنے آ سکتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ حکم نامہ امریکی کمپنیوں کو بین الاقوامی بدعنوانی میں ملوث ہونے کی کھلی چھوٹ دینے کے مترادف ہے، جو عالمی معیشت پر سنگین اثرات مرتب کر سکتا ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ اور محکمہ انصاف کے موجودہ عہدیداروں کی جانب سے اس معاملے پر کوئی باضابطہ ردعمل سامنے نہیں آیا، تاہم ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ امریکی معیشت کے بجائے بدعنوان کاروباری حلقوں کے حق میں کیا گیا ہے۔
کیا یہ فیصلہ برقرار رہے گا؟
ماہرین کے مطابق، اگر اس حکم نامے کو قانونی چیلنج درپیش نہ ہوا، تو امریکی کمپنیاں بغیر کسی خوف کے رشوت کے ذریعے عالمی معاہدے حاصل کر سکیں گی، جس سے امریکا کا اینٹی کرپشن کا طویل المدتی مؤقف مکمل طور پر تبدیل ہو سکتا ہے۔
یہ دیکھنا باقی ہے کہ آیا امریکی کانگریس اور دیگر عالمی ادارے اس متنازعہ فیصلے کے خلاف کوئی اقدام کرتے ہیں یا نہیں۔ تاہم، ٹرمپ کے اس فیصلے نے پہلے ہی عالمی سطح پر ایک نئی بحث کو جنم دے دیا ہے۔