98
فوجی عدالتوں میں شہریوں کا ٹرائل روکنے کی درخواست مسترد، سابق چیف جسٹس پر جرمانہ عائد
اسلام آباد: سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل روکنے کی درخواست مسترد کر دی، سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ پر جرمانہ عائد سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل روکنے کی درخواست مسترد کرتے ہوئے سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ پر 20 ہزار روپے کا…
اسلام آباد: سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل روکنے کی درخواست مسترد کر دی، سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ پر جرمانہ عائد
سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل روکنے کی درخواست مسترد کرتے ہوئے سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ پر 20 ہزار روپے کا جرمانہ عائد کر دیا۔
تفصیلات کے مطابق، سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں کے فیصلوں کے خلاف انٹراکورٹ اپیلوں پر سماعت کے دوران وکیل جواد ایس خواجہ نے درخواست دائر کی تھی کہ 26 آئینی ترمیم کے فیصلے تک فوجی عدالتوں کے مقدمات کا فیصلہ نہ کیا جائے۔
سماعت کے دوران جسٹس مندوخیل نے وکیل سے سوال کیا کہ کیا وہ آئینی بینچ کے دائرہ اختیار کو تسلیم کرتے ہیں؟ جس پر وکیل جواد ایس خواجہ نے جواب دیا کہ وہ عدالت کے دائرہ اختیار کو تسلیم نہیں کرتے، جس پر جسٹس مندوخیل نے انہیں کمرہ عدالت چھوڑنے کی ہدایت دی۔
اسی دوران جسٹس محمد علی مظہر نے وکیل سے کہا کہ تاخیری حربے استعمال کیے جا رہے ہیں اور ہر سماعت پر نئی درخواستیں پیش کی جاتی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر 26 ترمیم کالعدم ہو جاتی ہے تو بھی فوجی عدالتوں کے فیصلوں کو تحفظ حاصل ہوگا، کیونکہ جو افراد فوجی عدالتوں میں زیر حراست ہیں، وہ بھی یہی چاہتے ہیں۔
سپریم کورٹ نے حفیظ اللہ نیازی کو روسٹرم پر بلایا اور ان سے سوال کیا کہ کیا وہ کیس چلانا چاہتے ہیں؟ حفیظ اللہ نیازی نے جواب دیا کہ وہ اس کیس کو چلانا چاہتے ہیں۔
جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ جیلوں میں قید افراد کے بارے میں سوچنا چاہیے کیونکہ ان کا اس کیس میں کوئی حق دعویٰ نہیں بنتا۔
آئینی بینچ نے درخواست خارج کرتے ہوئے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کر دی اور جواد ایس خواجہ پر بلا جواز درخواست دائر کرنے پر 20 ہزار روپے کا جرمانہ عائد کیا۔
یاد رہے کہ جواد ایس خواجہ نے 26 آئینی ترمیم کے خلاف دائر درخواستوں کے فیصلے تک فوجی عدالتوں میں مقدمات کی سماعت نہ کرنے کی درخواست کی تھی۔