67
پڑھے لکھے لوگوں نے کس جماعت کو ووٹ دیا؟ سروے نتائج میں تفصیلات سامنے آگئیں ناخواندہ افراد کی اکثریت نے مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کو ووٹ دیا۔ گیلپ پاکستان کے ایگزٹ پول سروے میں انکشاف
ملک میں 8 فروری کو ہوئے عام انتخابات کے حوالے سے گیلپ پاکستان کے ایگزٹ پول سروے میں بتایا گیا ہے کہ پڑھے لکھے لوگوں کی اکثریت نے پاکستان تحریک انصاف کو ووٹ دیا۔ سروے نتائج کے مطابق بیچلرز اور ماسٹرز ڈگری رکھنے والوں میں سے پی ٹی آئی کے ووٹر 35 فیصد رہے، مسلم لیگ ن کو 15 فیصد اور 10 فیصد نے پیپلزپارٹی کو ووٹ دیا،…
ملک میں 8 فروری کو ہوئے عام انتخابات کے حوالے سے گیلپ پاکستان کے ایگزٹ پول سروے میں بتایا گیا ہے کہ پڑھے لکھے لوگوں کی اکثریت نے پاکستان تحریک انصاف کو ووٹ دیا۔ سروے نتائج کے مطابق بیچلرز اور ماسٹرز ڈگری رکھنے والوں میں سے پی ٹی آئی کے ووٹر 35 فیصد رہے،
مسلم لیگ ن کو 15 فیصد اور 10 فیصد نے پیپلزپارٹی کو ووٹ دیا، اسی طرح مڈل پاس افراد میں 31 فیصد ووٹرز مسلم لیگ کے تھے، 26 فیصد نے پی ٹی آئی کو ووٹ دیا اور 15 فیصد نے پیپلز پارٹی کا انتخاب کیا جب کہ ناخواندہ افراد کی اکثریت نے مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کے حق میں اپنا ووٹ کا حق استعمال کیا، جن میں سے 29 فیصد نے ن لیگ، 23 فیصد نے پیپلزپارٹی کو ووٹ دیا اور پی ٹی آئی 21 فیصد ناخواندہ افراد کا ووٹ حاصل کرسکی
اسی طرح اپنی رپورٹ میں پلڈاٹ نے کہا ہے کہ 2024ء کے عام انتخابات میں سب سے کم منصفانہ سکور ریکارڈ کیا گیا، پولنگ سے قبل انتخابات کے شیڈول میں تاخیر، سیاسی جبر اور نگران حکومت کی جانب سے غیر جانبداری کا فقدان دیکھا گیا، خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال تھی جب کہ پولنگ کے دن موبائل فون اور انٹرنیٹ سروسز کی معطلی نے نا صرف ای ایم ایس کو متاثر کیا بلکہ انتخابی عمل میں عوام کی شرکت کے لیے بھی مشکلات پیدا کیں۔
پلڈاٹ کا کہنا ہے کہ پولنگ مکمل ہونے کے بعد غیر حتمی نتائج کے اعلان میں تاخیر نے انتخابات کی ساکھ پر سنگین سوالات کو جنم دیا، فارم 45 اور فارم 47 کے درمیان بڑے پیمانے پر فرق کے الزامات نے بھی انتخابات کی ساکھ کے بارے میں خدشات کو بڑھا دیا ہے، الیکشن کمیشن آف پاکستان کی ویب سائٹ پر فارم 45، 46، 48 اور 49 کی اشاعت میں تاخیر ہوئی، الیکشنز ایکٹ 2017 کے سیکشن 95 (10) کی خلاف ورزی نے الیکشن کی ساکھ کو مزید نقصان پہنچایا، ایس آئی سی کو مخصوص نشستوں کی الاٹمنٹ پولنگ کے دن سے لے کر 25 دنوں تک ایک بڑا تنازعہ بنی رہی اور دیگر تمام سیاسی جماعتوں کو مخصوص نشستیں الاٹ کی گئیں۔
اسی معاملے پر عام انتخابات کی نگرانی کرنے والے ادارے فافن نے بھی عام انتخابات سے متعلق ابتدائی مشاہدہ رپورٹ جاری کی ہے جس میں موبائل فون، انٹرنیٹ کی بندش اور نتائج میں تاخیر پر سوالات اٹھائے گئے، چیئرپرسن فافن مسرت قدیم نے کہا کہ الیکشن کے دوران 6 کروڑ کے قریب لوگوں نے حق رائے دہی کا استعمال کیا، ٹرن آؤٹ 48 فیصد رہا، اسلام آباد میں سب سے زیادہ ٹرن آؤٹ 54 اور 58 فیصد ریکارڈ کیا گیا، 16 لاکھ بیلٹ پیپرز مسترد ہوئے، یہ گزشتہ بار بھی اتنے ہی تھے، 25 حلقوں میں مسترد ووٹوں کا مارجن جیت کے مارجن سے زیادہ تھا۔
انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابی مشق کا انعقاد قابل ستائش ہے، انتخابات کے انعقاد سے بے یقینی کا دور بند ہو گیا، تاہم انتخابات میں شفافیت پولنگ اسٹیشن تک محدود رہی، ریٹرننگ افسران کے دفاتر میں شفافیت پر سوال اٹھ سکتا ہے، آر او افس میں مبصرین کو نہیں جانے دیا گیا، فافن نے ملک میں 5 ہزار 664 مبصرین تعینات کیے، 28 فیصد پولنگ اسٹیشنز پر افسران نے فارم 45 کی کاپی مبصرین کو نہیں دی، فارم 45 کی کاپی 29 فیصد پولنگ اسٹیشنز کے باہر آوایزں نہیں کی گئی، موبائل فون اورانٹرنیٹ کی بندش سے پارلیمان کی کوشش کو نقصان پہنچایا گیا، امیدواروں کے نتائج پر تحفظات الیکشن کمیشن کو جلد حل کرنے کی ضرورت ہے، حلقہ بندی کے عمل سے بہت سے امیدوار متاثرہوئے۔