98
پاکستان میں ترقیاتی منصوبوں کا تقابلی تجزیہ: ن لیگ اور عمران خان کے دور
پاکستان میں ترقیاتی منصوبوں کا تقابلی تجزیہ: ن لیگ اور عمران خان کے دور تحریر: خرم ابن شبیر پاکستان کی سیاسی تاریخ میں جب بھی ترقیاتی منصوبوں کی بات کی جاتی ہے، تو دو جماعتوں کے ادوار میں سب سے زیادہ زیر بحث رہنے والے منصوبے وہ ہیں جو پاکستان مسلم لیگ ن (ن لیگ)…
پاکستان میں ترقیاتی منصوبوں کا تقابلی تجزیہ: ن لیگ اور عمران خان کے دور
تحریر: خرم ابن شبیر
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں جب بھی ترقیاتی منصوبوں کی بات کی جاتی ہے، تو دو جماعتوں کے ادوار میں سب سے زیادہ زیر بحث رہنے والے منصوبے وہ ہیں جو پاکستان مسلم لیگ ن (ن لیگ) اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے دور میں شروع کیے گئے۔ ان منصوبوں کا مقصد ملک کی معیشت کو مستحکم کرنا، عوام کو بنیادی سہولتیں فراہم کرنا اور پاکستان کو ایک ترقی یافتہ ملک کے طور پر عالمی سطح پر متعارف کروانا تھا۔ تاہم، ان دونوں جماعتوں کے منصوبوں کے حوالے سے عوامی تاثرات، کامیابیاں، ناکامیاں اور تنقید بھی مختلف نوعیت کی رہی ہیں۔
ن لیگ کے دور میں شروع ہونے والے منصوبے:
پاکستان مسلم لیگ ن نے اپنے مختلف ادوار میں کئی بڑے ترقیاتی منصوبوں کا آغاز کیا، جن میں توانائی کے شعبے کی ترقی، انفراسٹرکچر کی بہتری اور معاشی ترقی کے منصوبے شامل تھے۔ ان میں سب سے اہم منصوبہ چین پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) ہے، جو نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے کی ترقی میں سنگ میل ثابت ہو سکتا ہے۔ ن لیگ نے اس منصوبے کو اپنے دور حکومت میں شروع کیا تھا، جس میں سڑکوں، ریلوے لائنوں، توانائی کے منصوبوں اور گوادر بندرگاہ کی ترقی شامل تھی۔ اس کے ذریعے پاکستان کو عالمی سطح پر معاشی اور تجارتی فائدے حاصل ہونے کی توقع ہے۔ تاہم، اس منصوبے کی مالی شفافیت اور مقامی مفادات پر سوالات بھی اٹھائے گئے ہیں۔
اسی طرح، توانائی کے بحران کو حل کرنے کے لیے ن لیگ نے متعدد منصوبوں پر کام کیا، جن میں حویلی بہادر شاہ، بلوکی پاور پلانٹ اور ساہیوال کول پاور پلانٹ شامل ہیں۔ ان منصوبوں سے توانائی کی پیداوار میں اضافہ ہوا، لیکن ان منصوبوں کی لاگت اور ان سے بجلی کے بلوں میں اضافے کی وجہ سے عوامی ردعمل بھی ملا۔ ان منصوبوں کے باوجود پاکستان کا توانائی کا بحران پوری طرح حل نہیں ہو سکا، اور بجلی کی لوڈشیڈنگ بعض علاقوں میں جاری رہی۔
ن لیگ نے سڑکوں کے نیٹ ورک کی بہتری کے لیے کئی اہم منصوبے شروع کیے، جن میں اسلام آباد-لکھنوے موٹر وے اور مختلف شہروں کو ایک دوسرے سے جوڑنے والی سڑکیں شامل ہیں۔ ان منصوبوں کے ذریعے عوام کی نقل و حرکت میں آسانی پیدا ہوئی، جس کا براہ راست فائدہ معیشت کو ہوا۔ ان منصوبوں میں ن لیگ کی حکومت نے سڑکوں کی حالت کو بہتر بنانے اور فاصلے کم کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ تاہم، ان منصوبوں کی تکمیل میں تاخیر اور لاگت میں اضافہ بعض حلقوں میں تنقید کا باعث بنا۔
ن لیگ کی حکومت نے تعلیمی اور صحت کے شعبوں میں بھی کچھ اہم منصوبوں کا آغاز کیا، جیسے پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن اور نیشنل ہیلتھ پروگرام۔ ان منصوبوں کا مقصد عوام کو تعلیم اور صحت کی بہتر سہولتیں فراہم کرنا تھا، تاہم ان منصوبوں کی تکمیل اور معیار پر مختلف آراء موجود ہیں۔ پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن نے بہت سے اسکولز قائم کیے، لیکن ان اسکولز کی تدریسی معیار اور سلیبس پر سوالات اٹھائے گئے، جس کی وجہ سے یہ منصوبہ زیادہ کامیاب نہیں ہو سکا۔ اسی طرح، صحت کے شعبے میں کیے گئے اقدامات بھی بعض اوقات عوامی ضرورتوں کو پورا کرنے میں ناکام رہے۔
عمران خان کے دور میں منصوبوں کا آغاز:
عمران خان کی حکومت نے بھی کئی اہم ترقیاتی منصوبوں کا آغاز کیا، جن میں سپیشل اکنامک زونز اور ٹورزم کے فروغ کے منصوبے شامل ہیں۔ عمران خان کے دور میں سی پیک کے تحت منصوبوں کو مزید تیز کرنے کی کوشش کی گئی، اور وزیراعظم کیمپ آفسز اور نوجوانوں کے لیے قرضے فراہم کرنے کے پروگرامز شروع کیے گئے۔ ان منصوبوں کا مقصد نہ صرف معیشت کی ترقی تھا بلکہ ملک میں روزگار کے مواقع پیدا کرنا اور عوام کو معاشی طور پر خود کفیل بنانا تھا۔ عمران خان کے دور میں نوجوانوں کی فلاح و بہبود پر خاص توجہ دی گئی اور ان کے لیے قرضوں اور روزگار کے مواقع فراہم کرنے کی کوشش کی گئی۔
عمران خان کے دور حکومت میں کرپشن کے خلاف اقدامات اور ٹیکس نیٹ ورک کی بہتری پر بھی زور دیا گیا۔ ان اقدامات کا مقصد حکومت کی مالی حالت کو مستحکم کرنا اور عوام کی فلاح کے لیے وسائل مہیا کرنا تھا۔ تاہم، ان اقدامات کی کامیابی کو لے کر بھی سوالات اٹھائے گئے ہیں، کیونکہ معاشی مسائل اور مہنگائی نے عوام کو مزید پریشانی میں مبتلا کیا۔ عمران خان نے اداروں میں اصلاحات اور حکومتی سطح پر شفافیت کے فروغ کی کوشش کی، لیکن ان اقدامات کی عملی کامیابی محدود رہی۔
موازنہ اور نتیجہ:
ن لیگ کے دور میں کیے گئے ترقیاتی منصوبوں کی بات کریں تو توانائی کے شعبے کی ترقی، سڑکوں کے جال کا پھیلاؤ اور عالمی سطح پر پاکستان کے تجارتی راستوں کی بہتری ایک نمایاں تبدیلی رہی۔ تاہم، ان منصوبوں کی لاگت، ان کی تکمیل میں تاخیر اور عوامی سطح پر اس کے فوائد کا براہ راست نظر نہ آنا ایک بڑا چیلنج بن کر سامنے آیا۔ ان منصوبوں کی کامیابی یا ناکامی کے حوالے سے کئی سوالات کھڑے کیے گئے، جن میں شفافیت، مالیاتی نظام اور عوامی فائدے کو لے کر اختلافات رہے ہیں۔
دوسری طرف، عمران خان کے دور میں معیشت کی بہتری، کرپشن کے خلاف جنگ اور نوجوانوں کے لیے منصوبے شروع کیے گئے۔ ان اقدامات نے عوام میں ایک نئی امید پیدا کی، لیکن مہنگائی اور معاشی دباؤ نے عوامی ردعمل کو جنم دیا۔ عمران خان نے اپنے دور میں جن منصوبوں پر کام کیا، ان میں اقتصادی اصلاحات اور عوامی فلاح کے اقدامات شامل تھے، لیکن ان کے اثرات فوری طور پر عوام تک نہیں پہنچ سکے۔
مجموعی طور پر، دونوں حکومتوں نے اپنے دور میں اہم منصوبوں پر کام کیا، لیکن ان کی کامیابی کا دارومدار ان کی تکمیل، شفافیت اور عوامی سطح پر ان کے اثرات پر ہے۔ پاکستان کی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ حکومتیں اپنے منصوبوں کو شفاف طریقے سے مکمل کریں اور عوام تک ان کے فوائد پہنچائیں