98
چین کا بڑا اقدام: امریکی مصنوعات پر 84 فیصد تک نئے محصولات نافذ
چین کا بڑا اقدام: امریکی مصنوعات پر 84 فیصد تک نئے محصولات نافذ چین کا بڑا فیصلہ: امریکی مصنوعات پر 84 فیصد تک نئے محصولات عائد چین نے امریکا کی جانب سے بڑھتے تجارتی دباؤ کے جواب میں امریکی مصنوعات پر 84 فیصد تک نئے محصولات عائد کرنے کا اعلان کر دیا ہے، جس…
چین کا بڑا اقدام: امریکی مصنوعات پر 84 فیصد تک نئے محصولات نافذ
چین کا بڑا فیصلہ: امریکی مصنوعات پر 84 فیصد تک نئے محصولات عائد
چین نے امریکا کی جانب سے بڑھتے تجارتی دباؤ کے جواب میں امریکی مصنوعات پر 84 فیصد تک نئے محصولات عائد کرنے کا اعلان کر دیا ہے، جس سے دنیا کی دو بڑی معیشتوں کے درمیان جاری تجارتی کشیدگی نئی شدت اختیار کر گئی ہے۔
چینی وزارتِ خزانہ کے مطابق، یہ فیصلہ واشنگٹن کی جانب سے چینی مصنوعات پر 104 فیصد تک محصولات عائد کیے جانے کے بعد کیا گیا ہے۔ ترجمان کا کہنا ہے کہ چین امریکی دباؤ کو مسترد کرتا ہے اور اپنی خودمختاری کا بھرپور دفاع کرے گا۔
تجارتی جنگ کی نئی لہر
دونوں ممالک کے درمیان تجارتی کشمکش کا آغاز رواں برس فروری میں اس وقت ہوا، جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے چین، کینیڈا اور میکسیکو پر نئے ٹیرف عائد کیے۔ ٹرمپ انتظامیہ نے چین پر فینٹانائل کی تجارت میں مبینہ کردار کے الزام میں چینی درآمدات پر مرحلہ وار 20 فیصد ڈیوٹی نافذ کی۔
ردعمل میں، چین نے بھی امریکی توانائی مصنوعات—ایل این جی اور کوئلہ—پر 15 فیصد ٹیرف کا اعلان کیا، جس کے بعد یہ کشیدگی بتدریج شدت اختیار کرتی گئی۔
ٹیرف کی دوڑ میں اضافہ
امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے چین پر 54 فیصد مجموعی ٹیرف کے نفاذ کے بعد، چین نے 10 اپریل سے امریکی اشیاء پر 34 فیصد ٹیرف عائد کرنے کا اعلان کیا۔ تاہم، جب امریکا نے بدھ کو یہ ٹیرف بڑھا کر 104 فیصد تک کر دیا، تو چین نے بھی جوابی کارروائی کرتے ہوئے ٹیرف کی شرح 84 فیصد تک پہنچا دی۔
"آخر تک لڑیں گے” – چین کا مؤقف
چینی وزارتِ تجارت نے اپنے سخت ردِعمل میں کہا ہے کہ امریکا کی "غنڈہ گردی” کو کسی صورت قبول نہیں کیا جائے گا اور اگر واشنگٹن نے جارحانہ رویہ ترک نہ کیا تو چین آخر تک لڑنے کے لیے تیار ہے۔
چینی حکام کا کہنا ہے کہ امریکا ٹیرف کو بطور ہتھیار استعمال کر رہا ہے، جو بین الاقوامی تجارتی اصولوں کے منافی ہے۔
ٹرمپ کا ردعمل
ادھر امریکی صدر نے چین کے اقدامات کو "بڑی غلطی” قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ چین دباؤ میں آ چکا ہے، اور جب تک 295 ارب ڈالر کا تجارتی خسارہ ختم نہیں ہوتا، امریکا کسی معاہدے کے لیے تیار نہیں ہوگا۔