98
زرعی ٹیکس نہ لگاتے تو پاکستان ڈیفالٹ کر جاتا، وزیراعلیٰ سندھ
زرعی ٹیکس کے بغیر آئی ایم ایف کی ٹیم نہ آتی اور پاکستان ڈیفالٹ کر جاتا، وزیراعلیٰ سندھ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے انکشاف کیا ہے کہ اگر زرعی ٹیکس نہ لگایا جاتا تو بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی ٹیم پاکستان نہ آتی اور ملک ڈیفالٹ کر جاتا۔ ان کا…
زرعی ٹیکس کے بغیر آئی ایم ایف کی ٹیم نہ آتی اور پاکستان ڈیفالٹ کر جاتا، وزیراعلیٰ سندھ
وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے انکشاف کیا ہے کہ اگر زرعی ٹیکس نہ لگایا جاتا تو بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی ٹیم پاکستان نہ آتی اور ملک ڈیفالٹ کر جاتا۔ ان کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت نے یہ واضح کیا ہے کہ زرعی آمدنی پر ٹیکس عائد کرنا آئی ایم ایف سے معاہدے کا ایک اہم حصہ تھا، جس کے بغیر پاکستان کی مالی صورتحال مزید خراب ہو سکتی تھی۔
سندھ اسمبلی میں زرعی ٹیکس کی منظوری
سندھ اسمبلی نے زرعی آمدنی پر انکم ٹیکس اور سپر ٹیکس کے نفاذ کی منظوری دے دی ہے، تاہم وزیراعلیٰ سندھ نے اعتراف کیا کہ صوبائی حکومت کو اس معاملے پر تحفظات ہیں۔ انہوں نے اسمبلی اراکین کو یقین دہانی کرائی کہ اگر زرعی ٹیکس قانون میں بہتری کی ضرورت محسوس کی گئی تو اس میں ترامیم کی جا سکتی ہیں۔
ایف بی آر کی ناکامی اور زرعی ٹیکس کی تجویز
اپنے خطاب میں مراد علی شاہ نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ایف بی آر نے اپنی ٹیکس وصولی کی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے آئی ایم ایف کو زرعی ٹیکس عائد کرنے کی تجویز دی۔ ان کے مطابق، جب ایک مرتبہ آئی ایم ایف کو اس طرح کا راستہ دکھا دیا جائے تو وہ اپنی شرائط پر سختی سے قائم رہتے ہیں، جس سے حکومت کے پاس بہت محدود گنجائش بچتی ہے۔
اپوزیشن کے تحفظات اور ردعمل
وزیراعلیٰ سندھ نے اپوزیشن کو یقین دہانی کرائی کہ وہ زرعی ٹیکس میں بہتری کے لیے تجاویز پیش کریں، جن پر غور کیا جائے گا اور ممکنہ تبدیلیاں کی جا سکتی ہیں۔ تاہم، اس معاملے پر سندھ کابینہ میں بھی سخت اختلافات دیکھنے میں آئے۔
گزشتہ روز سندھ کابینہ کے اجلاس میں، زرعی ٹیکس کے نفاذ کے فیصلے پر شدید بحث ہوئی، اور بیشتر اراکین نے اسے صوبائی خودمختاری میں مداخلت قرار دیا۔
زرعی اور صنعتی شعبے میں فرق
کابینہ کے اجلاس میں کئی وزراء نے موقف اختیار کیا کہ زرعی شعبے پر صنعتوں کے برابر ٹیکس لگانا زرعی معیشت کے ساتھ زیادتی ہوگی، کیونکہ زرعی شعبہ صنعتی شعبے کی طرح ریگولیٹڈ نہیں ہے۔
مزید یہ کہ ہاری (کسان) زرعی پیداوار میں 50 فیصد کا حق دار ہوتا ہے، جب کہ صنعت میں مزدور کو تنخواہ دی جاتی ہے۔ اس بنیادی فرق کو نظرانداز کرتے ہوئے زرعی شعبے پر یکساں ٹیکس لگانا نامناسب ہوگا۔
وفاق اور صوبوں کے درمیان اختلافات
یہ تنازع اس وقت مزید شدت اختیار کر گیا جب سندھ کابینہ کے بیشتر اراکین نے زرعی ٹیکس کے نفاذ کو صوبائی خودمختاری میں مداخلت قرار دیا۔ سندھ حکومت کا مؤقف ہے کہ زرعی ٹیکس کا نفاذ صوبائی دائرہ اختیار میں آتا ہے، اور وفاقی حکومت کو اس میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے تھی۔
ملکی معیشت پر اثرات
معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ زرعی ٹیکس کا نفاذ آئی ایم ایف معاہدے کا ایک لازمی حصہ تھا، اور اس کے بغیر پاکستان کو قرضوں کی اگلی قسط حاصل کرنے میں مشکلات پیش آ سکتی تھیں۔ تاہم، زرعی شعبے پر اضافی ٹیکس لگانے سے کسان برادری شدید متاثر ہو سکتی ہے، جو پہلے ہی مہنگائی اور موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات جھیل رہی ہے۔
بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے تجزیہ کاروں نے کہا کہ یہ فیصلہ پاکستان کی معیشت میں مزید پیچیدگیاں پیدا کر سکتا ہے، کیونکہ زرعی شعبہ ملکی معیشت کا ایک اہم ستون ہے، اور اس پر اضافی مالی بوجھ ڈالنے کے طویل مدتی نتائج سامنے آ سکتے ہیں۔