2 ذوالقعدة / April 30

صدر مملکت آصف علی زرداری نے الیکٹرانک کرائمز کی روک تھام (ترمیمی) بل 2025 (پیکا) کی توثیق کردی۔

اسلام آباد:

صدر مملکت آصف علی زرداری نے الیکٹرانک کرائمز کی روک تھام (ترمیمی) بل 2025 (پیکا) کی توثیق کر دی۔ ایوان صدر سے موصولہ اطلاعات کے مطابق، صدر نے پیکا ایکٹ کے علاوہ ڈیجیٹل نیشن پاکستان بل 2025 پر بھی دستخط کیے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی صدر نے نیشنل کمیشن آن دی اسٹیٹس آف ویمن (ترمیمی) بل 2025 کی بھی توثیق کر دی ہے۔

قبل ازیں، پارلیمانی رپورٹر نے پیکا ایکٹ کے خلاف مولانا فضل الرحمان کے ذریعے صدر مملکت تک اپنی آواز پہنچائی تھی، اور ذرائع کا دعویٰ تھا کہ صدر نے صحافیوں کو اعتماد میں لینے تک بل پر دستخط روک دیے تھے۔ حکومت نے پیکا ایکٹ کے ترمیمی بل کو پہلے قومی اسمبلی اور پھر سینیٹ سے منظور کرایا تھا، جس کے بعد بل کو صدر مملکت کے دستخط کے لیے ایوان صدر بھیجا گیا تھا۔

پیکا ایکٹ بل میں کیا تبدیلیاں کی گئی ہیں؟

ڈیجیٹل رائٹس پروٹیکشن اتھارٹی کا قیام:

ترمیمی بل میں ایک نئی اتھارٹی کی تشکیل کی تجویز دی گئی ہے جسے ڈیجیٹل رائٹس پروٹیکشن اتھارٹی (ڈی آر پی اے) کہا جائے گا۔ اس اتھارٹی کو آن لائن مواد ہٹانے اور ممنوعہ مواد تک رسائی حاصل کرنے کا اختیار دیا جائے گا۔ اتھارٹی کو اس مواد کے شیئر کرنے پر ملوث افراد کے خلاف کارروائی کرنے کا بھی اختیار ہوگا۔

سوشل میڈیا کی نئی تعریف:

پیکا ایکٹ میں "سوشل میڈیا” کی نئی تعریف کی گئی ہے جس میں سوشل میڈیا تک رسائی کے لیے استعمال ہونے والے ٹولز اور سافٹ ویئر کا اضافہ کیا گیا ہے۔ اس کے تحت "ویب سائٹ”، "ایپلیکیشن”، اور "مواصلاتی چینل” بھی بل کی نگرانی میں آئیں گے۔

سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی ریگولیشن:

ڈی آر پی اے کو سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو ریگولیٹ کرنے کا اختیار دیا جائے گا۔ یہ اتھارٹی غیر قانونی مواد کی شکایات کی تحقیقات کرے گی، اور ایسے مواد تک رسائی کو "بلاک” یا محدود کرنے کی مجاز ہوگی۔ سوشل میڈیا کمپنیوں کو اپنے احکامات پر عمل درآمد کے لیے ایک مخصوص ٹائم فریم دیا جائے گا۔ اتھارٹی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے لیے پاکستان میں دفاتر یا نمائندے رکھنے کی سہولت بھی فراہم کرے گی۔

غیر قانونی مواد کی تعریف میں توسیع:

پیکا ایکٹ میں غیر قانونی مواد کی تعریف میں توسیع کی گئی ہے جس میں اسلام مخالف، پاکستان کی سلامتی یا دفاع کے خلاف مواد شامل ہیں۔ اس کے علاوہ، غیر قانونی مواد کی 16 مختلف اقسام کی فہرست میں گستاخانہ مواد، تشدد، فرقہ وارانہ منافرت، فحش مواد، اور دہشت گردی کی حوصلہ افزائی شامل کی گئی ہے۔

جھوٹی خبر پھیلانے پر سزائیں:

ترمیمی بل کے مطابق جھوٹی خبر پھیلانے پر تین سال قید اور 20 لاکھ روپے جرمانہ ہوگا۔ اس کے علاوہ، ایک سوشل میڈیا پروٹیکشن ٹربیونل بھی قائم کیا جائے گا جو 90 روز کے اندر کیس نمٹانے کا پابند ہوگا۔ ٹربیونل کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کی جا سکے گی۔

ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کا خاتمہ:

مجوزہ ترامیم کے تحت ایف آئی اے کا سائبر کرائم ونگ ختم کیا جائے گا، اور اس کے تمام اثاثے اور بجٹ نیشنل سائبر کرائم انوسٹی گیشن ایجنسی (این سی سی آئی اے) کو منتقل کیے جائیں گے۔ اس کے ساتھ ہی، وفاقی حکومت نیشنل سائبر کرائم ایجنسی کے لیے ایک نیا ڈائریکٹر جنرل تعینات کرے گی۔

حذف شدہ مواد کی تشہیر پر سزا:

حذف شدہ مواد کو دوبارہ سوشل میڈیا پر نشر کرنے پر تین سال قید اور 20 لاکھ روپے جرمانہ عائد کیا جائے گا۔ اس کی ذمہ داری اسپیکرز، چیئرمین سینیٹ اور صوبائی اسمبلیوں پر بھی ہوگی۔

یہ ترمیمی بلوں کی منظوری اور ان کی تفصیلات پاکستان میں ڈیجیٹل اور سوشل میڈیا کے حوالے سے ایک اہم تبدیلی کی نمائندگی کرتی ہیں، جو کہ حکومت کی جانب سے انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے ریگولیشن کے عمل کو مزید سخت بنانے کی کوشش ہے۔