98
پی ٹی آئی نے 26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کر دی
پی ٹی آئی کی 26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے 26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف سپریم کورٹ میں باضابطہ طور پر درخواست دائر کر دی ہے۔ یہ درخواست پی ٹی آئی کے وکیل سمیر کھوسہ کے ذریعے دائر کی گئی، جس میں ترمیم…
پی ٹی آئی کی 26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے 26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف سپریم کورٹ میں باضابطہ طور پر درخواست دائر کر دی ہے۔ یہ درخواست پی ٹی آئی کے وکیل سمیر کھوسہ کے ذریعے دائر کی گئی، جس میں ترمیم کو آئین کے بنیادی ڈھانچے اور عدلیہ کی آزادی کے خلاف قرار دیا گیا ہے۔
درخواست کے نکات
پی ٹی آئی نے اپنی درخواست میں مؤقف اختیار کیا ہے کہ 26 ویں آئینی ترمیم کو کالعدم قرار دیا جائے اور اس پر فیصلے تک جوڈیشل کمیشن کو ججز کی تعیناتی سے روکا جائے۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ:
- 26 ویں ترمیم کے تحت ہونے والے تمام اقدامات کالعدم قرار دیے جائیں۔
- پارلیمنٹ آئین کے بنیادی خدوخال کو تبدیل نہیں کر سکتی۔
- عدلیہ کی آزادی آئین کا بنیادی جزو ہے اور اس کے خلاف کوئی ترمیم قبول نہیں کی جا سکتی۔
- آئینی ترمیم اختیارات کی تقسیم کے اصول کے خلاف ہے، جو کہ آئین کا ایک لازمی حصہ ہے۔
آئینی اصولوں پر سوال
درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ 26 ویں آئینی ترمیم پارلیمنٹ کی جانب سے ایک ایسا اقدام ہے جو اختیارات کی تقسیم کے اصول کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔ پی ٹی آئی نے مؤقف اختیار کیا کہ عدلیہ کی آزادی اور اس کے اختیارات کو محدود کرنا آئین کے بنیادی ڈھانچے کے خلاف ہے، اور پارلیمنٹ کو ایسا کوئی اختیار حاصل نہیں کہ وہ عدلیہ کی خودمختاری میں مداخلت کرے۔
جوڈیشل کمیشن پر اعتراض
پی ٹی آئی نے خاص طور پر جوڈیشل کمیشن کی جانب سے ججز کی تعیناتی کے عمل کو بھی چیلنج کیا ہے۔ درخواست میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ سپریم کورٹ 26 ویں آئینی ترمیم پر فیصلے تک جوڈیشل کمیشن کو مزید ججز کی تقرری سے روکے تاکہ عدلیہ کی آزادی متاثر نہ ہو۔
سیاسی اور آئینی تنازعہ
26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف پی ٹی آئی کا سپریم کورٹ سے رجوع ایسے وقت میں آیا ہے جب ملک میں مختلف اداروں کے اختیارات اور آئینی حدود پر بحث جاری ہے۔ اس اقدام کو سیاسی اور قانونی حلقوں میں اہم پیش رفت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
یہ معاملہ اب سپریم کورٹ کے سامنے ہے، جہاں یہ دیکھنا باقی ہے کہ عدالت کس طرح اس آئینی تنازعے کو حل کرتی ہے اور کیا فیصلے سامنے آتے ہیں۔ یہ مقدمہ ملک میں عدلیہ کی آزادی اور پارلیمنٹ کے اختیارات کے درمیان توازن قائم کرنے کے لیے ایک اہم نظیر بن سکتا ہے۔