1 ذوالقعدة / April 29

گورنر خیبر پختونخوا کے اہم بیانات: این آر او، مذاکرات اور صوبائی مسائل

گورنر خیبر پختونخوا فیصل کریم کنڈی نے ایک پریس کانفرنس میں سیاسی حالات، صوبے کی موجودہ صورتحال، اور حکومتی اقدامات پر کھل کر اظہارِ خیال کیا۔ پشاور پریس کلب میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کئی اہم معاملات پر روشنی ڈالی، جن میں این آر او، مذاکرات، امن و امان، اور کرپشن شامل ہیں۔

بانیٔ پی ٹی آئی اور این آر او کا معاملہ

فیصل کریم کنڈی نے واضح کیا کہ بانیٔ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو این آر او نہیں ملے گا۔ انہوں نے کہا کہ ان کی رہائی یا مقدمات کا فیصلہ عدالتوں نے کرنا ہے، حکومت کا اس میں کوئی کردار نہیں۔

مذاکرات اور سنجیدگی کا فقدان

گورنر کا کہنا تھا کہ مذاکرات ہمیشہ سنجیدہ افراد کے ساتھ کیے جاتے ہیں۔ انہوں نے پیپلز پارٹی کے مؤقف کو دہرایا کہ مسائل کا حل صرف مذاکرات کے ذریعے نکالا جا سکتا ہے۔ فیصل کریم کنڈی نے پی ٹی آئی کے رویے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ جو لوگ پہلے کسی کے ساتھ بات چیت کرنے کو تیار نہیں تھے، آج اسپیکر کی منتیں کر رہے ہیں۔

تعلیمی اور امن و امان کی صورتحال

گورنر نے صوبے کی تعلیمی اور امن و امان کی حالت پر گہری تشویش کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ خیبر پختونخوا کی 26 یونیورسٹیاں مستقل وائس چانسلرز سے محروم ہیں، اور امن و امان کی صورتحال بدترین ہے۔ وزیرِ اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ اپنے ضلع کی صورتحال بھی بہتر نہیں کر پا رہے۔

کرپشن اور صوبائی حکومت کی کارکردگی

فیصل کریم کنڈی نے صوبے میں کرپشن کی شدید مذمت کی اور کہا کہ صوبائی حکومت مسائل حل کرنے میں ناکام رہی ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ پی ٹی آئی دہشت گردوں کی سہولت کار ہے اور عوام کو انتشار میں مبتلا کرنا چاہتی ہے، جس کی مثال یہ ہے کہ پارٹی نے آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) میں شرکت نہیں کی۔

وفاق اور کرم کا مسئلہ

کرم میں جاری کشیدگی پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وفاق اور فوج کو اس معاملے پر مداخلت کرنی پڑی کیونکہ صوبائی حکومت مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ وفاق سے ملنے والے 5 ارب روپے کہاں خرچ ہوئے، اور پولیس کو کیا سہولیات فراہم کی گئیں؟

صحت کارڈ اور دیگر مسائل

گورنر نے صحت کارڈ کے حوالے سے سندھ اور خیبر پختونخوا کے درمیان موازنہ کرتے ہوئے کہا کہ سندھ میں اس سہولت کے ذریعے 50 لاکھ روپے سے زیادہ رقم ملتی ہے، جبکہ خیبر پختونخوا میں یہ سہولت محدود ہے۔ انہوں نے ایپکس کمیٹی کے اراکین پر بھی عدم اعتماد کا اظہار کیا اور کہا کہ ان کے خلاف مقدمات درج ہیں۔

نتیجہ

فیصل کریم کنڈی نے اپنی گفتگو کے دوران صوبائی حکومت کی ناکامیوں کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ اگر ضرورت پڑی تو وہ بین الاقوامی اداروں سے مدد لینے کے لیے بھی تیار ہیں۔ ان کا مؤقف تھا کہ صوبے میں مسائل کا حل وفاقی تعاون اور مضبوط حکمت عملی کے بغیر ممکن نہیں۔