98
پاکستان کی سیاست میں پی ٹی آئی کا بحران اور ریاستی ردعمل: خرم ابن شبیر کا تجزیہ
پاکستان کی سیاست میں پی ٹی آئی کا بحران اور ریاستی ردعمل: خرم ابن شبیر کا تجزیہ پاکستان کی سیاست ہر دن ایک نیا موڑ لے رہی ہے، اور اس کا اہم حصہ پی ٹی آئی کی موجودہ صورتحال ہے، جو اپریل 2022 کے بعد سے مختلف بحرانوں اور چیلنجز کا سامنا کر رہی ہے۔…
پاکستان کی سیاست میں پی ٹی آئی کا بحران اور ریاستی ردعمل: خرم ابن شبیر کا تجزیہ
پاکستان کی سیاست ہر دن ایک نیا موڑ لے رہی ہے، اور اس کا اہم حصہ پی ٹی آئی کی موجودہ صورتحال ہے، جو اپریل 2022 کے بعد سے مختلف بحرانوں اور چیلنجز کا سامنا کر رہی ہے۔ پی ٹی آئی کی سیاسی حکمت عملی مسلسل ناکامیوں کا شکار ہے، اور اب تک کی ان تحریکوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس پارٹی کے اقدامات نہ صرف سیاسی لحاظ سے غیر مؤثر ثابت ہوئے ہیں، بلکہ ریاستی اداروں سے متصادم ہونے کے نتیجے میں قومی سطح پر اس کے اثرات بھی منفی ہی رہے ہیں۔
پی ٹی آئی کا سیاسی منظرنامہ خاصا پیچیدہ اور متنازعہ بن چکا ہے۔ ایک طرف جہاں اس پارٹی کی قیادت اپنے آپ کو عوامی امنگوں کی ترجمان سمجھ رہی ہے، وہیں دوسری طرف اس کی ہر تحریک، ہر دھرنا اور ہر احتجاج کے نتیجے میں ریاستی اداروں اور عوام میں بے چینی اور اضطراب بڑھتا جارہا ہے۔ 2014 میں 126 دنوں کے دھرنے سے لے کر 2024 میں 24 نومبر کے "فائنل کال” تک، پی ٹی آئی کا سیاسی راستہ تضادات سے بھرپور رہا ہے۔
اگر ہم 2014 کے دھرنے کو دیکھیں، تو یہ ایک واضح مثال ہے کہ پی ٹی آئی نے کس طرح ریاست کے طاقتور اداروں اور حکومت کو چیلنج کیا۔ اس دوران سیاسی جماعت کی حیثیت سے پی ٹی آئی نے نہ صرف پارلیمنٹ کی عمارت کو نشانہ بنایا، بلکہ اپنی تحریک کے دوران ریاستی اداروں کی طاقت کو بھی نظرانداز کیا۔ پی ٹی وی پر قبضہ، مسلح افواج کو سیاست میں مداخلت کی دعوت دینا، اور سول نافرمانی کی تحریک چلانا، ان سب نے پی ٹی آئی کی سیاسی حیثیت کو ایک طرف تو عوامی سطح پر مقبولیت دی، لیکن دوسری طرف اداروں کے ساتھ تصادم کی راہ بھی ہموار کی۔ پھر، جب 2018 کے انتخابات میں پی ٹی آئی اقتدار میں آئی، تو اس نے اپنی پالیسیوں اور حکمت عملیوں کے ذریعے ملک کو اندرونی اور بیرونی سطح پر اقتصادی اور سیاسی مشکلات کا شکار کر دیا۔
آج، پی ٹی آئی کی موجودہ صورتحال میں ایک اہم پہلو یہ ہے کہ پارٹی کی قیادت اور اس کے حامی ایک ایسی سیاست کو فروغ دینے کی کوشش کر رہے ہیں جو نہ صرف جمہوری اقدار کے خلاف ہے، بلکہ ریاستی اداروں کو مسلسل چیلنج کرنے کی کوشش بھی کر رہی ہے۔ 9 مئی کے واقعات اور اس کے بعد کی سازشیں اس بات کا غماز ہیں کہ پی ٹی آئی نے ریاستی طاقت کے مراکز کے ساتھ ٹکرا کر اپنا سیاسی مستقبل خود ہی خطرے میں ڈال لیا۔ حالیہ دنوں میں 24 نومبر کا اسلام آباد مارچ بھی ایک ناکام کوشش ثابت ہوئی، جس میں پی ٹی آئی کے قائدین اور کارکنوں کا جوش و جذبہ جتنا بلند تھا، حقیقت میں وہ اتنا ہی کمزور ثابت ہوا۔
اگر ہم ان تمام واقعات کا تجزیہ کریں، تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ پی ٹی آئی نے اپنی سیاست میں کبھی بھی زمینی حقیقتوں کو مدنظر نہیں رکھا۔ اس کی پالیسیوں کا بیشتر حصہ جذباتی اور اشتعال انگیز رہا، جس نے اس کی عوامی حمایت میں کمی کی اور اس کے اثرات ریاستی اداروں پر پڑے۔ ان حالات میں جب پی ٹی آئی کو اپنی سیاست کے طریقہ کار پر نظر ثانی کی ضرورت تھی، وہ مسلسل خود کو فریبِ مسلسل میں مبتلا کرتی رہی۔
پی ٹی آئی کے اس طرزِ سیاست کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ اپنے کارکنوں اور عوامی حمایت کے باوجود ریاستی اداروں کے ساتھ براہِ راست تصادم کی راہ پر گامزن رہی۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی تحریکیں ایک ناکامی کے بعد دوسری ناکامی کی طرف بڑھیں، اور وہ کبھی بھی اپنے مقاصد میں کامیاب نہ ہو سکی۔ ان ناکامیوں کے باوجود، پی ٹی آئی کی قیادت نے ہمیشہ اپنے آپ کو اور اپنے کارکنوں کو یہی تاثر دیا کہ یہ صرف وقتی مشکلات ہیں، اور جلد ہی حالات ان کے حق میں بدل جائیں گے۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ پی ٹی آئی کی سیاست کے لیے اب اس کے پاس کوئی واضح حکمت عملی نہیں ہے۔ اداروں کے خلاف چلائی جانے والی مہمیں اور عوامی سطح پر کی جانے والی مخالف حکومتی تقریریں اب اس کے لیے نقصان دہ ثابت ہو رہی ہیں۔ اس بات کا قوی امکان ہے کہ پی ٹی آئی کو اس کی موجودہ سیاست کے ذریعے مزید ناکامیوں کا سامنا ہو گا، اور آخرکار یہ تنظیم اپنے ہی طریقہ کار کے شکنجے میں پھنس جائے گی۔
اس بات کی طرف بھی اشارہ کیا جا رہا ہے کہ پی ٹی آئی کی قیادت اب اپنے بحران سے نکلنے کے لیے نئے حربے استعمال کر رہی ہے، جیسے کہ بشریٰ بی بی کا ابھرنا اور پارٹی کی قیادت میں نئی تبدیلیاں، لیکن یہ سب بھی محض وقتی طور پر اس کے بحران کو کم کر سکتے ہیں۔ حقیقت میں، پی ٹی آئی کو اپنی سیاسی حکمت عملی پر نظرثانی کی ضرورت ہے، تاکہ وہ جمہوری اقدار اور ریاستی اداروں کے ساتھ ہم آہنگ ہو سکے۔
آخرکار، یہ سوال باقی رہتا ہے کہ کیا پی ٹی آئی اپنی غلطیوں سے سبق سیکھے گی یا پھر مزید ناکامیوں کے بعد بھی اپنے راستے پر گامزن رہ کر اپنے سیاسی مستقبل کو مزید داؤ پر لگائے گی؟