4 ذوالقعدة / May 02

سندھ اسمبلی میں شور شرابے کے باوجود بیوروکریٹس کے وائس چانسلر بننے کا بل منظور

سندھ اسمبلی نے اپوزیشن کے شدید احتجاج اور نعرے بازی کے باوجود سندھ یونیورسٹیز اینڈ انسٹیٹیوٹس ترمیمی بل اور سول کورٹ بل کثرت رائے سے منظور کرلیا۔ اس ترمیم کے تحت اب بیوروکریسی سے تعلق رکھنے والے 20ویں گریڈ کے ایم اے پاس افسران سندھ میں کسی بھی یونیورسٹی کے وائس چانسلر بن سکیں گے، جبکہ اس سے قبل اس عہدے کے لیے پی ایچ ڈی کی شرط لازمی تھی، جسے اب ختم کردیا گیا ہے۔

اسمبلی میں ہنگامہ آرائی اور اپوزیشن کا احتجاج

سندھ اسمبلی میں یہ بل صوبائی وزیر داخلہ و پارلیمانی امور ضیا لنجار نے پیش کیا، جس پر اپوزیشن جماعتوں خصوصاً متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) نے شدید اعتراض کیا۔ اپوزیشن لیڈر علی خورشیدی نے مطالبہ کیا کہ ان بلز کو کمیٹی کے سپرد کیا جائے تاکہ ان پر مزید غور کیا جاسکے، تاہم ان کا مطالبہ مسترد کردیا گیا اور بل کو کثرت رائے سے منظور کرلیا گیا۔

اس فیصلے کے خلاف ایم کیو ایم ارکان نے ایوان میں شدید احتجاج کیا، نعرے بازی کی اور اسپیکر کے ڈائس کے گرد جمع ہوکر ایجنڈے کی کاپیاں پھاڑ دیں۔ اپوزیشن کا مؤقف تھا کہ حکومت نے جامعات کے انتظامی معاملات میں مداخلت بڑھانے کے لیے یہ قانون منظور کیا ہے، جو اعلیٰ تعلیمی معیار کے لیے نقصان دہ ہوگا۔

حکومتی مؤقف: "یہ ایک انتظامی پوسٹ ہے”

ایم کیو ایم اور دیگر اپوزیشن جماعتوں کی تنقید کا جواب دیتے ہوئے سندھ کے وزیر تعلیم سید سردار شاہ نے کہا کہ یہ فیصلہ جامعات کے بہتر انتظامی امور کے لیے کیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا، "پروفیسرز کے وائس چانسلر بننے کے بعد بھی کئی جامعات میں انتظامی مسائل دیکھنے میں آئے ہیں۔ وائس چانسلر کی پوزیشن ایک انتظامی عہدہ ہے، اور اس میں اصلاحات لانا ضروری تھا تاکہ جامعات کا نظام زیادہ مؤثر طریقے سے چلایا جا سکے۔”

اساتذہ اور ماہرینِ تعلیم کا احتجاج

اسمبلی کے باہر جامعات کے اساتذہ اور تعلیمی ماہرین نے اس بل کے خلاف احتجاج کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس فیصلے سے صوبے میں اعلیٰ تعلیم کے معیار کو نقصان پہنچے گا اور جامعات میں بیوروکریسی کے تسلط سے تحقیقی سرگرمیاں مزید متاثر ہوں گی۔

ایم کیو ایم کے رکن اسمبلی صابر قائم خانی نے بھی اس بل پر تنقید کرتے ہوئے کہا، "جس طرح بیوروکریسی نے دیگر اداروں میں مسائل پیدا کیے ہیں، اب یہی کچھ جامعات میں بھی ہوگا۔”

حکومت کی تعلیمی پالیسی اور سبسڈی

وقفۂ سوالات کے بعد سندھ کے وزیر اطلاعات و ٹرانسپورٹ شرجیل انعام میمن نے ایوان میں پالیسی بیان دیتے ہوئے کہا کہ صوبے میں شہریوں کو سفری سہولیات فراہم کرنے کے لیے روزانہ 50 لاکھ روپے کی سبسڈی دی جا رہی ہے۔

بعد ازاں، ڈپٹی اسپیکر سندھ اسمبلی نے اجلاس پیر کی صبح 10 بجے تک ملتوی کردیا۔

کیا یہ بل تعلیمی معیار پر اثر ڈالے گا؟

تعلیمی ماہرین کا کہنا ہے کہ وائس چانسلر کے لیے پی ایچ ڈی کی شرط ختم کرنا ایک غیرمعمولی فیصلہ ہے جو جامعات کی خودمختاری اور تحقیقی ماحول پر اثر ڈال سکتا ہے۔ دوسری جانب، حکومت کا مؤقف ہے کہ یہ قدم صرف جامعات کی انتظامی بہتری کے لیے اٹھایا گیا ہے، تاکہ ان اداروں کو زیادہ منظم انداز میں چلایا جا سکے۔

یہ بل تعلیمی شعبے میں کیا تبدیلیاں لائے گا اور آیا اس سے جامعات کے معیار پر کوئی اثر پڑے گا یا نہیں، اس کا اندازہ آنے والے دنوں میں ہوگا۔