98
خواجہ آصف کا جسٹس منصور پر سوال: "عوام کا اعتماد مجروح ہونے کا پہلے خیال کیوں نہ آیا؟”
وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس منصور علی شاہ کے خط پر سخت تنقید کرتے ہوئے مختلف سوالات اور اعتراضات اٹھائے ہیں۔ ان کا بیان کئی اہم پہلوؤں پر مشتمل ہے: خط کے متن پر اعتراض خواجہ آصف نے جسٹس منصور علی شاہ کے اس خط کا حوالہ دیا جس…
وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس منصور علی شاہ کے خط پر سخت تنقید کرتے ہوئے مختلف سوالات اور اعتراضات اٹھائے ہیں۔ ان کا بیان کئی اہم پہلوؤں پر مشتمل ہے:
خط کے متن پر اعتراض
خواجہ آصف نے جسٹس منصور علی شاہ کے اس خط کا حوالہ دیا جس میں انہوں نے جوڈیشل کمیشن کے اجلاس کو مؤخر کرنے کی درخواست کرتے ہوئے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ عدلیہ پر عوام کا اعتماد مجروح ہو سکتا ہے۔ خواجہ آصف نے کہا کہ یہ خدشہ اپنی جگہ، لیکن ماضی میں عدلیہ کے وقار کو مجروح کرنے والے اقدامات پر یہ احساس کیوں نہیں ہوا؟
ماضی کے عدالتی کردار پر سوالات
خواجہ آصف نے سابق چیف جسٹسز اور ججز کے کردار پر بھی شدید تحفظات کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا:
- ثاقب نثار، آصف سعید کھوسہ، اعجاز الاحسن، اور مظاہر نقوی جیسے ججز کے اقدامات عدلیہ کے وقار کو پامال کرنے کے ذمہ دار ہیں۔
- ان کے مطابق، عدلیہ کے ساتھ جو کچھ ہوا، جسٹس منصور علی شاہ اس کے عینی گواہ ہیں۔
عدالتی نظام میں غیر جانبداری کا فقدان
خواجہ آصف نے جسٹس منصور علی شاہ کے رویے کو "سلیکٹیو سینس آف جسٹس” قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ طرزِ عمل ان کے اعلیٰ منصب کے شایانِ شان نہیں۔ انہوں نے سوال کیا کہ عدلیہ کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں اور عوام کے اعتماد کے نقصان پر یہ حساسیت اس وقت کیوں نہیں دکھائی گئی؟
محترم مقام کے باوجود تنقید
انہوں نے کہا کہ جسٹس منصور علی شاہ ایک معزز اور اعلیٰ مقام پر فائز ہیں، اور وہ ان کا احترام کرتے ہیں، لیکن ان کا یہ رویہ سوالات کو جنم دیتا ہے۔ خواجہ آصف نے زور دیا کہ عدلیہ کو غیر جانبدار رہنا چاہیے اور انصاف کا یکساں اطلاق ہونا چاہیے۔
جوڈیشل کمیشن کے اجلاس کا پس منظر
خواجہ آصف کی تنقید جسٹس منصور علی شاہ کے اس خط کے جواب میں آئی ہے، جس میں انہوں نے جوڈیشل کمیشن کے اجلاس کو مؤخر کرنے کی درخواست کی تھی۔
- خط میں جسٹس منصور علی شاہ نے عدالتی تقرریوں کے عمل پر تحفظات کا اظہار کیا اور اس معاملے میں شفافیت کو یقینی بنانے پر زور دیا تھا۔
- اس خط کے بعد عدلیہ کے اندرونی معاملات اور اس پر سیاسی دباؤ کا موضوع مزید نمایاں ہو گیا۔
سیاسی منظرنامہ
خواجہ آصف کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں آیا ہے جب عدلیہ اور حکومت کے درمیان تعلقات کشیدہ ہیں۔
- حکومت بارہا عدلیہ کے فیصلوں کو تنقید کا نشانہ بناتی رہی ہے، خاص طور پر ان معاملات میں جو سیاسی نوعیت کے ہوں۔
- دوسری طرف، عدلیہ کے اندرونی معاملات اور بعض ججز کے فیصلوں پر شکوک و شبہات نے عوام میں بھی بحث کو جنم دیا ہے۔
نتیجہ
یہ بیان صرف جسٹس منصور علی شاہ پر تنقید نہیں بلکہ عدالتی نظام میں موجود خامیوں اور عدلیہ کے کردار پر ایک وسیع بحث کا حصہ ہے۔ خواجہ آصف کے بیانات نے ایک بار پھر عدلیہ کی غیر جانبداری اور شفافیت کے سوال کو سیاسی ایوانوں اور عوامی حلقوں میں نمایاں کر دیا ہے۔