28 مُحَرَّم / July 23

تحریر: خرم ابن شبیر

شادی سے پہلے جہلم کا سفر اکیلے مزے سے ہو جایا کرتا تھا۔ جیب میں چند نوٹ، کندھے پر بیگ، اور دل میں ایک عجیب سا سکون ہوتا تھا کہ جہاں دل کیا، ویگن پکڑی اور چل دیے۔ لیکن شادی کے بعد معاملہ کچھ یوں ہو گیا کہ جہلم کا نام سنتے ہی ایک انجانی تھکن سی محسوس ہونے لگی۔ ویسے آپ جیسے ذہین قارئین فوراً سمجھ ہی گئے ہوں گے کہ جہلم میرا سسرال ہے، تو یقیناً یہ تھکن سسرال کی محبت میں نہیں، بلکہ سفر کی حالتِ زار کے سبب ہوتی تھی۔

پہلے تو خود ہی ویگن یا بس پر بیٹھ جاتا تھا، لیکن شادی کے بعد جب بیگم اور پھر بچے ساتھ ہوئے تو وہی سفر، جو کبھی "خوشگوار” لگتا تھا، اب "خدشہ وار” لگنے لگا۔ جو لوگ لوکل بسوں اور ویگنوں کے سفر سے واقف ہیں، وہ جانتے ہیں کہ سیٹ پر بیٹھنا بھی قسمت کا کھیل ہے، اور اگر بچے ساتھ ہوں تو سمجھیں آپ کی قسمت چھٹی پر ہے۔

کبھی کسی کی گود میں بچہ دے دیا جاتا، کبھی خود کھڑے ہو کر بیگم کو سیٹ دینا پڑتی، اور کبھی تو ڈرائیور حضرات کی پنجابی میں کی گئی "محبت بھری” باتیں سن کر لگتا کہ شاید ہم کوئی نیکی کا کام کرنے نکلے ہیں۔

لیکن ایک دن امید کی کرن اُس وقت نظر آئی جب ہمارے بڑے ماموں جی، جو کہ نہ صرف عقل مند بلکہ تجربہ کار بھی ہیں، کہنے لگے: "یار خرم! تُسی ریل نئیں آزمائی؟” میں نے حیرت سے ان کی طرف دیکھا، گویا وہ مجھے چاند پر جانے کا مشورہ دے رہے ہوں۔ پھر انہوں نے بڑے سکون سے پاکستان ریلوے کی ایپلیکیشن کے بارے میں بتایا، جس پر بآسانی ٹکٹ بک کی جا سکتی ہے۔

خیر، ایک دن دل کڑا کیا اور سوچا چلو تجربہ کرتے ہیں۔ ریل کی ایپ کھولی، ٹکٹ بک کیا، اور جب پہلی بار خود ریل پر بیٹھا تو یقین جانیے، ایسا لگا جیسے اللہ نے سفر میں رحمت ڈال دی ہو۔ کھلی کھلی سیٹیں، چلتی ہوا، کھڑکی سے باہر بدلتے مناظر، اور سب سے بڑھ کر: شور شرابے سے پاک ماحول۔

پھر ایک دن فیصلہ کیا کہ اب کی بار مکمل فیملی کے ساتھ ریل کا سفر کیا جائے۔ بیگم، بچوں کو تیار کیا، سامان باندھا، اور وقت پر اسٹیشن پہنچے۔ ریل پر چڑھتے ہی بچوں کی خوشی دیدنی تھی۔ وہ کبھی کھڑکی سے جھانکتے، کبھی سیٹوں پر اچھلتے، اور کبھی راہداری میں گھومتے۔ مجھے خود بھی لگا کہ ہم کسی تفریحی پارک میں آ گئے ہیں۔

یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ ہمارے قریبی دوست، شیخ عمران، جو پاکستان ریلوے میں ٹکٹ چیکر ہیں، اکثر ہماری بکنگ کروا دیتے۔ کبھی کبھار تو وہ بھی اسی ٹرین میں ہوتے، پھر بچوں کو مزید خوش کر دیتے۔ کبھی چپس، کبھی جوس، اور کبھی سیلفیاں۔ وہ بچوں کو اکانومی اور بزنس کلاس کے درشن بھی کرواتے، اور بچے خوشی سے تالیاں بجاتے۔

ریل کے سفر میں وقت کا پتہ ہی نہیں چلتا۔ نہ ہارن کا شور، نہ بریکوں کی جھنکار، نہ کنڈکٹر کی چیخ و پکار۔ ہر چیز میں ایک ترتیب، ایک سکون۔ آپ چاہیں تو لیٹ جائیں، بیٹھ جائیں، کھڑے ہو جائیں یا واک ہی کر لیں۔ واش روم کی سہولت بھی موجود، اور اگر کسی بڑے اسٹیشن سے گزر ہو تو وہاں مختلف چیزیں بھی مل جاتی ہیں۔

ایک بار کا ذکر ہے کہ جب ہم گوجر خان سے آگے نکلے تو ایک چھوٹا سا بچہ میرے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھا مسکرا رہا تھا۔ اس کی ماں نے بتایا کہ پہلی بار ریل کا سفر کر رہا ہے۔ وہ بچہ بار بار کھڑکی سے باہر جھانکتا، ہاتھ ہلاتا اور پوچھتا، "امی! یہ گاڑی اُڑتی کیوں نہیں؟” سب مسکرا دیے۔ تب مجھے اندازہ ہوا کہ ریل کا سفر صرف منزل کا ذریعہ نہیں، بلکہ خود ایک تجربہ ہے جو ہر عمر کے فرد کے دل میں جگہ بنا لیتا ہے۔

ریل میں ایک اور دلچسپ چیز یہ ہے کہ یہاں آپ کو پاکستان کے اصل رنگ نظر آتے ہیں۔ کوئی مزدور جا رہا ہوتا ہے، کوئی طالب علم، کوئی بزرگ اپنے بچوں سے ملنے، تو کوئی خاندان کے ساتھ سیر پر۔ ان سب کی کہانیاں، ان کے لہجے، ان کے چہرے، سب کچھ آپ کو پاکستان سے جوڑ دیتا ہے۔

اب جب بھی جہلم جانا ہو، ریل کا سفر ہی ترجیح ہوتی ہے۔ وقت کی پابندی، سہولت، اور سب سے بڑھ کر بچوں کا سکون۔ پہلے تو بچوں کے سفر سے پہلے ہی چہرے لٹکے ہوتے تھے، اب وہ خود کہتے ہیں، "ابو! ٹرین والی گاڑی پر جائیں گے نا؟”

ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے ملک کی سہولیات کو صرف استعمال نہ کریں، بلکہ ان کی بہتری میں بھی کردار ادا کریں۔ جو چیز اچھی ہے، اس کی تعریف کریں، اور جو خامی ہو، اسے مثبت انداز میں حکام تک پہنچائیں۔ پاکستان ریلوے ایک اثاثہ ہے، اور اگر ہم اس کو سنجیدگی سے اپنائیں تو یہ نہ صرف آسان سفر کا ذریعہ بن سکتا ہے بلکہ ترقی کی راہ بھی ہموار کر سکتا ہے۔

یقین جانیے، ریل کا سفر اب صرف سفر نہیں رہا — یہ ایک خوشگوار یاد، ایک روایتی مہک، اور خاندان کے ساتھ وقت گزارنے کا بہترین طریقہ بن چکا ہے۔