98
ایران سے افغان مہاجرین کی واپسی کی رفتار تیز ہو گئی
ایران سے افغان پناہ گزینوں کی واپسی میں تیزی، مستقبل غیر یقینی کابل/تہران —ایران سے افغانستان واپس آنے والے افغان پناہ گزینوں کی تعداد میں رواں ماہ نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ اقوامِ متحدہ کی مہاجرین ایجنسی (یو این ایچ سی آر) کے مطابق روزانہ ہزاروں افغان ایران سے واپس آ رہے ہیں، جن میں سے…
ایران سے افغان پناہ گزینوں کی واپسی میں تیزی، مستقبل غیر یقینی
کابل/تہران —
ایران سے افغانستان واپس آنے والے افغان پناہ گزینوں کی تعداد میں رواں ماہ نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ اقوامِ متحدہ کی مہاجرین ایجنسی (یو این ایچ سی آر) کے مطابق روزانہ ہزاروں افغان ایران سے واپس آ رہے ہیں، جن میں سے بیشتر کو ان کی مرضی کے بغیر سرحد تک پہنچایا جا رہا ہے۔
یو این ایچ سی آر کے مطابق صرف 4 جولائی کے روز 50 ہزار سے زائد افغان ایران سے افغانستان میں داخل ہوئے، جبکہ رواں سال اب تک 12 لاکھ سے زیادہ افغان واپس لوٹ چکے ہیں۔ ایران نے افغان پناہ گزینوں کے لیے واپسی کی حتمی تاریخ 6 جولائی مقرر کی تھی، جس کے بعد انخلا کی رفتار مزید بڑھ گئی ہے۔
ایرانی حکام کا کہنا ہے کہ افغان پناہ گزینوں کو وطن واپس بھیجنے کی یہ مہم ملک میں معاشی دباؤ اور غیرقانونی رہائش کے مسائل کے پیش نظر شروع کی گئی ہے۔ تاہم امدادی ادارے اس عمل کو جبری قرار دے رہے ہیں۔ ہلالِ احمر نے اس بڑے پیمانے پر افغانوں کی واپسی پر شدید تشویش ظاہر کی ہے۔ ادارے کے مطابق، “بیشتر افراد کو زبردستی بسوں میں بٹھا کر سرحد پر چھوڑ دیا جا رہا ہے، جبکہ ان میں سے کئی ایسے ہیں جن کے پاس افغانستان میں نہ گھر ہے اور نہ روزگار۔”
امدادی تنظیموں کے مطابق، ایران اور اسرائیل کے درمیان حالیہ کشیدگی اور معاشی بدحالی کے بعد ایران میں افغان مہاجرین کے لیے حالات مزید خراب ہو گئے ہیں۔ گزشتہ ماہ ایران اور اسرائیل کے مابین جنگ کے بعد سے افغانوں کی واپسی کی شرح میں تیزی دیکھی گئی۔
رپورٹس کے مطابق ایران سے اس سال مزید تقریباً 10 لاکھ افغان واپس بھیجے جا سکتے ہیں۔ افغانستان میں پہلے ہی انسانی بحران جاری ہے، اور بڑی تعداد میں واپس آنے والوں نے امدادی نظام پر مزید دباؤ ڈال دیا ہے۔
یو این ایچ سی آر کا کہنا ہے کہ واپس آنے والے زیادہ تر افغانوں کے لیے نہ رہائش موجود ہے اور نہ روزگار کے مواقع۔ ادارے نے ان افراد کی مدد کے لیے 3 کروڑ 14 لاکھ ڈالر کی اپیل کی تھی، لیکن اب تک صرف 10 فیصد رقم ہی جمع ہو سکی ہے۔
افغان حکومت نے اس صورتحال پر تاحال باضابطہ ردِعمل نہیں دیا۔ لیکن امدادی اداروں کا کہنا ہے کہ اگر واپسی کی یہ رفتار جاری رہی تو افغانستان میں پہلے سے موجود غذائی قلت، بے روزگاری اور غربت کے مسائل مزید سنگین ہو جائیں گے۔