1 ذوالقعدة / April 29

تحریر: خرم ابن شبیر

پاکستان کی حالیہ تاریخ میں کچھ ایسے واقعات رونما ہوئے جنہوں نے ریاست اور عوام کے درمیان ایک مستقل خلیج پیدا کر دی۔ ان میں سے ایک 2007 میں ہونے والا لال مسجد آپریشن تھا، جو آج بھی سیاسی، مذہبی اور سماجی سطح پر ایک اہم موضوع بحث ہے۔ لال مسجد اور جامعہ حفصہ کی کہانی صرف ایک مسلح تنازع کی نہیں، بلکہ یہ مذہبی بیانیے، حکومتی پالیسی، مدارس کے کردار اور دہشت گردی کے خلاف جنگ جیسے گہرے مسائل سے جڑی ہوئی ہے۔

 

اسلام آباد کے قلب میں واقع لال مسجد اور اس سے ملحقہ جامعہ حفصہ کئی دہائیوں سے ایک دینی و تعلیمی مرکز رہے ہیں۔ اس کے بانی مولانا عبداللہ اور ان کے بعد ان کے صاحبزادے مولانا عبدالعزیز اور مولانا عبدالرشید غازی اس مسجد کے خطیب رہے۔ 1990 کی دہائی میں یہ مسجد ایک عام دینی مرکز سے بڑھ کر ایک ایسی تحریک کی علامت بن گئی جو شریعت کے نفاذ اور ریاستی پالیسیوں پر اثر انداز ہونے کی خواہشمند تھی۔

2000 کی دہائی کے وسط میں جامعہ حفصہ کی طالبات اور لال مسجد کے طلبہ نے اسلام آباد میں بعض غیر شرعی سرگرمیوں کے خلاف کارروائیاں شروع کر دیں، جن میں ویڈیو سینٹرز پر چھاپے، مبینہ فحاشی کے مراکز کو بند کرانے کی کوششیں، اور حکومت سے شریعت کے نفاذ کا مطالبہ شامل تھا۔ حکومت کے لیے یہ صورت حال ایک چیلنج بن گئی کیونکہ یہ ایک ایسی تحریک تھی جو سرکاری رٹ کو کھلا چیلنج دے رہی تھی۔

 

جولائی 2007 میں پاکستانی فوج نے لال مسجد کے خلاف ایک بڑا آپریشن کیا، جو کئی دنوں تک جاری رہا۔ اس آپریشن میں مولانا عبدالرشید غازی سمیت درجنوں افراد مارے گئے، اور اس کے نتیجے میں ریاستی اداروں اور مذہبی حلقوں کے درمیان ایک خلیج پیدا ہو گئی۔

یہ آپریشن صرف ایک داخلی معاملہ نہیں تھا بلکہ اس کے بین الاقوامی اثرات بھی تھے۔ امریکہ اور مغربی طاقتیں پاکستان پر دباؤ ڈال رہی تھیں کہ وہ مذہبی انتہا پسندی کے خلاف سخت اقدامات کرے۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت کے صدر پرویز مشرف کی حکومت نے طاقت کا بھرپور استعمال کیا، لیکن اس کے نتیجے میں ایک نئی شدت پسند تحریک نے جنم لیا، جس نے بعد میں پاکستان کو دہشت گردی کی لپیٹ میں لے لیا۔

سوال یہ ہے کہ کیا 2007 میں طاقت کے استعمال کے بغیر کوئی دوسرا راستہ موجود تھا؟ کچھ تجزیہ کار کہتے ہیں کہ مذاکرات کے ذریعے معاملہ حل کیا جا سکتا تھا، جبکہ کچھ کا ماننا ہے کہ لال مسجد کی قیادت پہلے ہی ایک مسلح تصادم کی طرف بڑھ رہی تھی، اس لیے ریاست کے پاس کوئی اور راستہ نہیں تھا۔

آج لال مسجد ایک بار پھر خبروں میں ہے، کیونکہ جامعہ حفصہ کی قیادت، خاص طور پر ام حسان صاحبہ، حکومت کے سخت رویے کا سامنا کر رہی ہیں۔ حالیہ دنوں میں ام حسان صاحبہ کی گرفتاری نے ایک نیا تنازع کھڑا کر دیا ہے۔ ان پر ریاست مخالف سرگرمیوں، شدت پسندی کی حمایت اور غیر قانونی کارروائیوں میں ملوث ہونے کے الزامات ہیں، جبکہ ان کے حامیوں کا کہنا ہے کہ انہیں صرف اس لیے نشانہ بنایا جا رہا ہے کیونکہ وہ ایک مضبوط مذہبی موقف رکھتی ہیں۔

پاکستانی حکومت ایک طرف مدارس کی اصلاحات کی بات کر رہی ہے، اور دوسری طرف لال مسجد جیسے اداروں پر سخت کنٹرول رکھنا چاہتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا حکومت مدارس کو ساتھ لے کر چل سکتی ہے یا پھر ریاست اور دینی حلقوں کے درمیان یہ کھینچا تانی مزید بڑھے گی؟

 

2007 کے آپریشن کے بعد پاکستانی میڈیا میں لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے حوالے سے دو متضاد بیانیے دیکھنے کو ملے۔ کچھ صحافیوں نے اسے ریاستی ظلم قرار دیا، جبکہ بعض نے لال مسجد کی قیادت کو شدت پسندی کا ذمہ دار ٹھہرایا۔

میڈیا کا کردار اس حوالے سے ہمیشہ متنازعہ رہا ہے۔ بعض اوقات لال مسجد کے خلاف یکطرفہ رپورٹنگ کی گئی، اور بعض اوقات انہیں مکمل ہیرو بنا کر پیش کیا گیا۔ حقیقت شاید ان دونوں انتہاؤں کے درمیان کہیں موجود ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا لال مسجد اور جامعہ حفصہ کی قیادت مستقبل میں اپنا موقف نرم کرے گی یا پھر یہ محاذ آرائی جاری رہے گی؟ مولانا عبدالعزیز اور ان کے حامی اب بھی حکومت پر سخت تنقید کرتے ہیں اور ان کا مطالبہ ہے کہ ملک میں شریعت کا مکمل نفاذ ہو۔

تاہم، یہ حقیقت ہے کہ پاکستان ایک جمہوری ریاست ہے اور یہاں مختلف نظریات رکھنے والے افراد موجود ہیں۔ اگر لال مسجد کی قیادت واقعی کوئی مثبت تبدیلی چاہتی ہے تو انہیں ریاست کے ساتھ ایک بامقصد مکالمہ کرنا ہوگا، ورنہ یہ تنازع مزید شدت اختیار کر سکتا ہے۔

حکومت مسلسل کہتی آ رہی ہے کہ وہ مدارس کو جدید تعلیم کے ساتھ ہم آہنگ کرنا چاہتی ہے تاکہ شدت پسندی کا خاتمہ ہو۔ مگر دوسری طرف مذہبی حلقے سمجھتے ہیں کہ یہ مدارس کے اسلامی تشخص کو ختم کرنے کی سازش ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا واقعی مدارس کو اصلاحات کی ضرورت ہے یا پھر حکومت ایک مخصوص ایجنڈے پر عمل کر رہی ہے؟ کچھ مدارس نے خود کو جدید تعلیمی نظام کے ساتھ جوڑ لیا ہے، مگر لال مسجد جیسے ادارے اب بھی اپنی پرانی پالیسی پر قائم ہیں۔

لال مسجد آپریشن کے بعد پاکستان میں دہشت گردی کی ایک نئی لہر آئی۔ تحریک طالبان پاکستان (TTP) نے اس واقعے کو ایک جواز بنا کر خودکش حملوں کی شدت بڑھا دی۔ سوال یہ ہے کہ کیا واقعی لال مسجد کا واقعہ دہشت گردی کے پھیلاؤ کا سبب بنا یا یہ محض ایک اتفاق تھا؟

لال مسجد کی قیادت ہمیشہ کہتی رہی ہے کہ وہ پرامن ہیں، لیکن ریاست کا موقف یہ ہے کہ وہاں سے شدت پسندی کی سوچ کو فروغ دیا جاتا رہا۔

ام حسان صاحبہ کو اس تحریک کی سب سے نمایاں خاتون رہنما کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ پاکستان میں خواتین مدارس کا کردار ہمیشہ ایک پیچیدہ موضوع رہا ہے۔ کچھ لوگ اسے خواتین کی دینی تربیت کے لیے ضروری سمجھتے ہیں، جبکہ کچھ کا کہنا ہے کہ انہیں ریاستی پالیسیوں کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے۔

بین الاقوامی سطح پر پاکستان پر ہمیشہ دباؤ رہا ہے کہ وہ شدت پسندی کے خلاف سخت اقدامات کرے۔ لال مسجد جیسے معاملات صرف داخلی نہیں بلکہ خارجی اثرات بھی رکھتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان کو اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کرنی چاہیے، یا پھر عالمی دباؤ کے بغیر اپنے فیصلے خود کرنے چاہئیں؟

لال مسجد اور جامعہ حفصہ کا تنازع پاکستان کے پیچیدہ مذہبی، سیاسی اور سیکیورٹی مسائل کی علامت ہے۔ یہ معاملہ محض ایک مسجد یا مدرسے کا نہیں، بلکہ ریاست اور مذہبی طبقے کے باہمی تعلقات کا امتحان بھی ہے۔ اگر حکومت اور دینی قیادت مذاکرات اور مفاہمت کی راہ اختیار کریں، تو شاید ایک بہتر مستقبل ممکن ہو سکے۔ لیکن اگر یہ کھینچا تانی جاری رہی، تو پاکستان کو مزید چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا۔