1 ذوالقعدة / April 29

تحریر: خرم ابن شبیر

پاکستان میں پیکا (پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ) میں ترامیم کی منظوری قومی اسمبلی سے بغیر مشاورت کے منظور کی گئی، جس نے نہ صرف صحافت بلکہ عوامی آزادی اظہار کو بھی شدید خطرے میں ڈال دیا ہے۔ حکومت نے یہ بل اچانک ضمنی ایجنڈے کے طور پر پیش کیا اور منظوری حاصل کر لی، جس پر صحافتی برادری اور دیگر حلقے سراپا احتجاج ہیں۔

پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے صدر افضل بٹ نے کہا کہ حکومت نے صحافتی تنظیموں کو یقین دہانی کروائی تھی کہ اس بل کے مسودے پر پیشگی مشاورت ہوگی، لیکن ایسا نہ ہوا۔ ان کے مطابق، یہ حکومتی اقدام نہ صرف وعدہ خلافی ہے بلکہ جمہوری اصولوں کے منافی بھی ہے۔

اس بل کے تحت جھوٹی خبروں پر تین سال قید اور 20 لاکھ روپے جرمانہ، سوشل میڈیا پروٹیکشن اتھارٹی کے قیام، اور غیر اخلاقی و اسلام مخالف مواد پر پابندی کے قوانین متعارف کرائے گئے ہیں۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان قوانین کے اطلاق میں شفافیت کیسے یقینی بنائی جائے گی؟

میری رائے میں، پیکا ترمیمی بل کے ذریعے حکومت کو بے پناہ اختیارات دیے گئے ہیں، جو تنقید کو دبانے اور آزاد صحافت کو محدود کرنے کے لیے استعمال ہو سکتے ہیں۔ بل کی وضاحت میں جھوٹی خبروں کی تعریف اور اس کا تعین کرنے والے ادارے کے بارے میں شفافیت نہایت ضروری ہے، ورنہ یہ قانون آزادی اظہار کے بجائے حکومتی کنٹرول کا ہتھیار بن سکتا ہے۔

یہ بات قابل غور ہے کہ حکومت نے اس بل کی منظوری کے لیے جلد بازی کا مظاہرہ کیا اور عوامی و صحافتی رائے کو مکمل طور پر نظرانداز کیا۔ یہ عمل جمہوریت کو کمزور کرنے کا باعث بن سکتا ہے اور عوام کے اعتماد کو ٹھیس پہنچا سکتا ہے۔

میری تجویز ہے کہ حکومت اس بل پر نظرثانی کرے اور تمام متعلقہ حلقوں، خصوصاً صحافیوں اور سول سوسائٹی کو شامل کر کے ایک متوازن اور شفاف قانون سازی کرے۔ اس کے ساتھ ہی، بل کے نفاذ کے لیے آزاد اور غیر جانبدار ادارہ قائم کیا جائے تاکہ کسی بھی قسم کے غلط استعمال کا سدباب کیا جا سکے۔

پیکا ترمیمی بل کے اثرات دور رس ہیں، اور اگر حکومت نے عوامی خدشات کو نظرانداز کیا، تو یہ قانون جمہوری اقدار اور بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی ساکھ کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔