1 ذوالقعدة / April 29

نوبل انعام یافتہ اور انسانی حقوق کی علمبردار ملالہ یوسفزئی نے افغانستان میں طالبان حکومت کی جانب سے خواتین کی تعلیم پر عائد کی گئی نئی پابندی پر گہری تشویش اور افسوس کا اظہار کیا ہے۔ ملالہ کا کہنا ہے کہ طالبان کا یہ قدم ان کے رویے کی تسلسل ہے اور یہ خواتین کے حقوق کی مسلسل پامالی کا حصہ ہے۔

طالبان کے ظالمانہ قوانین پر ملالہ کی رائے

ملالہ یوسفزئی نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس (سابقہ ٹویٹر) پر اپنی پوسٹ میں کہا:

"طالبان نے گزشتہ تین سال سے افغان خواتین اور لڑکیوں کو صنفی امتیاز اور ظلم کے زیر سایہ زندگی گزارنے پر مجبور کر دیا ہے۔”
انہوں نے مزید کہا کہ یہ اقدام نہ صرف خواتین کی آزادی بلکہ افغانستان کے مستقبل کو بھی متاثر کر رہا ہے، کیونکہ تعلیم کسی بھی قوم کی ترقی کا بنیادی ستون ہے۔

عالمی برادری کے کردار پر زور

ملالہ نے عالمی برادری سے اپیل کی کہ وہ طالبان کو ان اقدامات پر جوابدہ بنائے۔ انہوں نے کہا:

"دنیا کے پاس اب ایک ہی آپشن ہے: طالبان کو خواتین کے حقوق کی پامالی پر جوابدہ بنایا جائے اور ان کے ساتھ کسی قسم کے سمجھوتے سے گریز کیا جائے۔”
ملالہ نے کہا کہ خواتین کے حقوق پر سمجھوتہ نہ کرنا اور ان کے بنیادی حقوق کی بحالی کے لیے آواز اٹھانا عالمی برادری کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔

طالبان کے حالیہ فیصلے

طالبان حکومت نے حال ہی میں ایک اور متنازعہ حکم جاری کرتے ہوئے افغانستان میں خواتین کو صحت کے شعبے میں تعلیم حاصل کرنے سے بھی روک دیا ہے۔ یہ پابندی خواتین کے لیے پہلے ہی محدود مواقع کو مزید کم کرتی ہے۔

ملالہ کا موقف

ملالہ یوسفزئی نے کہا:

"یہ دیکھنا انتہائی افسوسناک ہے کہ طالبان کی جانب سے خواتین اور لڑکیوں کے لیے سیکھنے اور تعلیم حاصل کرنے کے مواقع پر مزید پابندیاں عائد کی جا رہی ہیں۔ لیکن یہ حیرت کی بات نہیں ہے، کیونکہ طالبان کے اقدامات ہمیشہ سے خواتین کے حقوق کے خلاف رہے ہیں۔”

افغان طالبان کی خواتین کی تعلیم پر پابندی حیران کُن نہیں: ملالہ یوسفزئی

خواتین کے حقوق کی مسلسل پامالی

ملالہ نے اپنی پوسٹ میں طالبان کی حکومت کو خواتین کے خلاف ایک "ظالمانہ اور صنفی امتیاز پر مبنی نظام” قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ طالبان کا خواتین کی تعلیم پر پابندی کا فیصلہ ایک قدم آگے بڑھ کر افغان خواتین کی آزادی اور ان کے حق تعلیم کو مکمل طور پر ختم کرنے کی کوشش ہے۔

پس منظر

  • گزشتہ پابندیاں: طالبان نے اقتدار سنبھالنے کے بعد خواتین پر مختلف پابندیاں عائد کیں، جن میں لڑکیوں کے اسکول جانے پر پابندی، یونیورسٹیز میں تعلیم حاصل کرنے پر روک، اور ملازمت کے مواقع ختم کرنا شامل ہیں۔
  • حالیہ حکم: صحت کے شعبے میں تعلیم پر پابندی طالبان کی خواتین کو معاشرے کے ہر شعبے سے دور رکھنے کی حکمت عملی کا حصہ ہے۔
  • تعلیم کا نقصان: افغانستان میں لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی نہ صرف خواتین کے لیے مواقع ختم کر رہی ہے بلکہ یہ معاشرتی اور اقتصادی ترقی کو بھی نقصان پہنچا رہی ہے۔

عالمی ردعمل

طالبان کے اس فیصلے کے بعد عالمی سطح پر مذمت کی جا رہی ہے۔ اقوام متحدہ اور دیگر انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس اقدام کو افغانستان کے مستقبل کے لیے خطرناک قرار دیا ہے۔

نتیجہ

ملالہ یوسفزئی نے اپنی پوسٹ کے ذریعے طالبان حکومت کی پالیسیوں پر کھل کر تنقید کی اور دنیا کو متنبہ کیا کہ اگر خواتین کے حقوق کے لیے فوری اقدامات نہ کیے گئے تو افغانستان میں صورتحال مزید خراب ہو سکتی ہے۔ ان کا یہ بیان ایک بار پھر خواتین کی آزادی اور حق تعلیم کے لیے ان کی جدوجہد کو واضح کرتا ہے۔