5 ذوالقعدة / May 03

جماعت اسلامی: تاریخ، حال، اور مستقبل

تحریر: خرم ابن شبیر

ابتداء اور قیام کی بنیاد

جماعت اسلامی کا قیام 26 اگست 1941ء کو مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ کی قیادت میں عمل میں آیا۔ جماعت اسلامی کی بنیاد ان اصولوں پر رکھی گئی تھی جو دینِ اسلام کو ایک مکمل ضابطہ حیات کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ مولانا مودودیؒ کا کہنا تھا کہ اسلام محض ایک مذہبی رسم نہیں بلکہ ایک ایسا نظام ہے جو انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے تمام پہلوؤں کو محیط ہے۔

مولانا مودودیؒ نے جماعت کے قیام کے ساتھ ہی یہ واضح کر دیا تھا کہ اس کا مقصد محض اقتدار کا حصول نہیں بلکہ "اقامت دین” ہے۔ ان کی فکر ایک ایسے معاشرتی نظام کی تشکیل پر مرکوز تھی جہاں انصاف، مساوات، اور انسانیت کی فلاح کے اصول نافذ ہوں۔

تاریخی کامیابیاں

تعلیمی اور فکری خدمات:

جماعت اسلامی نے علم و تحقیق کے میدان میں اہم کردار ادا کیا۔ "ترجمان القرآن” جیسی علمی اور فکری اشاعت نے لوگوں کو دین کی اصل روح سے روشناس کروایا۔

سیاسی جدوجہد:

پاکستان بننے کے بعد جماعت اسلامی نے ایک اصولی سیاسی جماعت کے طور پر اپنی شناخت بنائی۔ انتخابات میں حصہ لیتے وقت جماعت نے ہمیشہ اخلاقی اقدار کو ترجیح دی اور اصولی سیاست کی مثال قائم کی۔

سماجی خدمات:

قدرتی آفات، جنگوں، اور بحرانوں میں جماعت اسلامی کی ذیلی تنظیم "الخدمت فاؤنڈیشن” نے انسانیت کی خدمت کے لیے شاندار خدمات انجام دیں، جو جماعت کی اصولی جدوجہد کا مظہر ہے۔

موجودہ صورتحال کا تجزیہ

آج جماعت اسلامی کئی چیلنجز کا سامنا کر رہی ہے، جو نہ صرف اس کی سیاسی حیثیت بلکہ اس کی نظریاتی بنیادوں پر بھی اثر انداز ہو رہے ہیں۔

کارکنان کی تقسیم:

جماعت کے اندرونی کارکنان کی ایک بڑی تعداد سیاسی طور پر دوسرے نظریات کے زیر اثر نظر آتی ہے۔ یہ کارکنان یا تو یوتھیازم کا شکار ہیں یا پٹواریت کی طرف جھکاؤ رکھتے ہیں، جس سے جماعت کی نظریاتی بنیادوں میں کمزوری آ رہی ہے۔

قیادت کی الجھن:

موجودہ قیادت کی جانب سے واضح حکمت عملی اور دوٹوک موقف کا فقدان ہے۔ عوام اور کارکنان کو کنفیوژن کا سامنا ہے کہ جماعت اسلامی کا اصل بیانیہ کیا ہے۔

عوامی مقبولیت کی کمی:

دیگر سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں جماعت اسلامی کی مقبولیت کم ہوتی جا رہی ہے۔ اس کی بڑی وجہ عوام سے رابطے کی کمی اور جدید تقاضوں کے مطابق حکمت عملی نہ اپنانا ہے۔

مولانا مودودیؒ کے اقوال کی روشنی میں رہنمائی

مولانا مودودیؒ نے فرمایا:

"پاکستان کو ایک قوی مرد بنائیے، نہ کہ ایک ایسی عورت جسے کسی سہارے کی ضرورت ہو۔”

یہ الفاظ جماعت اسلامی کے لیے رہنمائی کا ذریعہ ہیں۔ جماعت کو نہ کسی طاقتور بلاک کی حمایت پر انحصار کرنا چاہیے اور نہ عوامی مقبولیت کے لیے اپنے اصولوں پر سمجھوتہ کرنا چاہیے۔ قیادت کو چاہیے کہ وہ اصولی سیاست پر ثابت قدم رہتے ہوئے ایک مضبوط اور خودمختار پوزیشن اپنائے۔

اقبالؒ کی فکر اور جماعت اسلامی

اقبالؒ کا کلام جماعت اسلامی کے لیے مشعل راہ ہے:

کھویا نہ جا صنم کدۂ کائنات میںمحفل گداز! گرمیِ محفل نہ کر قبولباطل دوئی پسند ہے، حق لا شریک ہےشرکت میان حق و باطل نہ کر قبول!

اقبالؒ کے ان اشعار کی روشنی میں جماعت اسلامی کو چاہیے کہ وہ حق اور باطل کے درمیان کسی قسم کی مفاہمت نہ کرے۔ قیادت کو ہر حال میں اصولوں پر قائم رہ کر معاشرتی اصلاحات کے لیے کام کرنا ہوگا۔

مستقبل کی حکمت عملی

جماعت اسلامی کو موجودہ چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ایک جامع حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے:

نظریاتی احیاء:

جماعت کے کارکنان کی فکری تربیت پر توجہ دی جائے اور انہیں جماعت کے بنیادی نظریات سے آگاہ کیا جائے۔

واضح قیادت:

قیادت کو اپنے بیانیے کو واضح کرنا ہوگا اور دو ٹوک موقف اپنانا ہوگا تاکہ عوام اور کارکنان کا اعتماد بحال ہو۔

جدید تقاضوں کے مطابق حکمت عملی:
جماعت کو عوامی مسائل کے حل کے لیے جدید اور قابل عمل منصوبے پیش کرنے ہوں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ ڈیجیٹل میڈیا اور سوشل میڈیا کا بھرپور استعمال کرنا ہوگا تاکہ جماعت کا پیغام زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچ سکے۔

عوامی رابطہ مہم:

عوام کے درمیان اپنی جڑیں مضبوط کرنے کے لیے مؤثر مہمات چلائی جائیں اور عوامی مسائل کو اجاگر کیا جائے۔

خرم ابن شبیر کا تجزیہ

جماعت اسلامی کے موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے میرے خیال میں:

جماعت کو اپنی موجودہ قیادت پر نظرثانی کرنی چاہیے اور ایسی قیادت کو آگے لانا چاہیے جو حالات کا درست ادراک رکھتی ہو۔

کارکنان کے درمیان نظریاتی تقسیم جماعت کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ اس کا حل کارکنان کی باقاعدہ تربیت اور واضح نظریاتی رہنمائی ہے۔

جماعت اسلامی کو عوامی مقبولیت کے لیے "پبلک ڈیمانڈ” پر چلنے کے بجائے اپنے اصولوں پر قائم رہنا چاہیے۔

جماعت کو اپنی فکری اور عملی جدوجہد کو مضبوط بنانے کے ساتھ ساتھ عوام کے دلوں میں اپنی جگہ بنانی ہوگی۔

اختتامیہ

جماعت اسلامی کی تاریخ قربانیوں اور اصولوں سے بھری ہوئی ہے۔ لیکن آج جماعت کو ایک نئے عزم، نئی سوچ، اور مؤثر حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ اگر جماعت اسلامی اپنی نظریاتی بنیادوں پر واپس آ کر عوامی مسائل کے حل کے لیے عملی اقدامات کرے تو وہ ایک بار پھر پاکستانی سیاست میں اپنی مضبوط شناخت قائم کر سکتی ہے۔

وما علینا الا البلاغ المبین۔