1 ذوالقعدة / April 29

پی ٹی آئی پر گولیاں یا محض شیلنگ؟ حقیقت کہاں چھپی ہے؟

تحریر: خرم ابن شبیر

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور حکومت کے بیانات کے درمیان شدید تضاد نے عوام کو حیرت میں مبتلا کر رکھا ہے۔ پی ٹی آئی دعویٰ کرتی ہے کہ ان کے کارکنان پر سیدھی گولیاں چلائی گئیں، جن کے نتیجے میں کئی افراد شہید ہوئے، جبکہ حکومت اصرار کرتی ہے کہ مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے صرف آنسو گیس اور لاٹھی چارج کا استعمال کیا گیا۔ ان متضاد بیانیوں کے درمیان حقیقت کہاں چھپی ہے؟

پی ٹی آئی کا موقف: ریاستی جبر اور ظلم کی کہانی

پی ٹی آئی قیادت کے مطابق:

. سیدھی گولیاں چلائی گئیں: کارکنان کو جان بوجھ کر نشانہ بنایا گیا، اور کئی افراد موقع پر ہی شہید ہو گئے۔

شہداء کی لاشوں کو چھپایا گیا: جاں بحق کارکنان کی لاشیں اہل خانہ کے حوالے کرنے میں رکاوٹیں ڈالی گئیں۔

لاپتہ افراد: درجنوں کارکنان کو نامعلوم مقامات پر منتقل کیا گیا، اور ان کی کوئی اطلاع نہیں دی گئی۔

زخمی کارکنان: پولیس اور دیگر اداروں کی کارروائیوں کے نتیجے میں متعدد افراد شدید زخمی ہوئے، لیکن انہیں مناسب طبی امداد فراہم کرنے کے بجائے گرفتار کر لیا گیا۔

حکومت کا موقف: مظاہرین کا تشدد اور قانون کی بحالی

حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے بیانات یہ ہیں:

مظاہرین نے سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا اور امن و امان کی صورتحال بگاڑنے کی کوشش کی۔

مظاہرین کو قابو میں لانے کے لیے صرف آنسو گیس اور لاٹھی چارج کیا گیا، نہ کہ مہلک ہتھیاروں کا استعمال۔

پی ٹی آئی اپنے کارکنان کو اکسا کر حالات مزید خراب کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

 

نور میڈیا فوٹو

حقیقت جاننے کے لیے اٹھنے والے سوالات

اس صورتحال میں کئی اہم سوالات جواب طلب ہیں:

 سیف سٹی فوٹیج کیوں پیش نہیں کی گئی؟

حکومت اگر واقعی بے گناہ ہے، تو وہ ڈی چوک اور دیگر حساس مقامات کی سیف سٹی کیمرے کی فوٹیج عوام کے سامنے کیوں نہیں لاتی؟

 ایف آئی آرز کیوں درج نہیں ہوئیں؟

پی ٹی آئی نے اپنے کارکنان پر ہونے والے مظالم کے خلاف ایف آئی آرز درج کرانے کے لیے قانونی کارروائی کیوں نہیں کی؟

 لاپتہ کارکنان کی بازیابی کے لیے کوشش کیوں نہیں؟

لاپتہ کارکنان کے اہل خانہ بے بسی کا شکار ہیں۔ قیادت نے ان کی بازیابی کے لیے عدالتوں سے رجوع کیوں نہیں کیا؟

 ہسپتالوں کے ریکارڈ کا حصول کیوں ممکن نہ ہوا؟

زخمی کارکنان کے علاج اور پوسٹ مارٹم کی تفصیلات حاصل کرنے کے لیے پی ٹی آئی نے ہسپتالوں سے قانونی طور پر ریکارڈ کیوں طلب نہیں کیا؟

 بین الاقوامی میڈیا سے رابطہ کیوں نہیں کیا گیا؟

پی ٹی آئی کو اپنے دعوؤں کو عالمی سطح پر پیش کرنے کے لیے انگریزی پریس کانفرنس اور غیر ملکی میڈیا کو شامل کرنا چاہیے تھا، لیکن ایسا کیوں نہیں کیا گیا؟

 عدالتی تحقیقات کی درخواست کیوں نہیں دی گئی؟

سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ میں ان واقعات کی غیر جانبدار جوڈیشل انکوائری کی درخواست کیوں نہیں دی گئی؟

 گرفتار کارکنان کی تفصیلات کیوں نہیں طلب کی گئیں؟

جن کارکنان کو گرفتار کیا گیا، ان کی فہرست اور موجودہ حیثیت جاننے کے لیے قانونی چارہ جوئی کیوں نہیں کی گئی؟

مئی کے واقعات: سوالات اور تضادات

یہ تمام سوالات خاص طور پر 24 مئی 2023 کے واقعات کے تناظر میں مزید اہم ہو جاتے ہیں۔ اس دن پی ٹی آئی کے کارکنان پر تشدد، گرفتاریاں، اور مبینہ طور پر گولیاں چلانے کے واقعات پیش آئے۔

مظاہرین کا کہنا تھا کہ وہ پرامن تھے، لیکن پولیس نے ظلم کی انتہا کر دی۔

حکومت کا دعویٰ تھا کہ مظاہرین نے حملہ کیا، جس کا جواب صرف شیلنگ اور لاٹھی چارج سے دیا گیا۔

قیادت کی ناکامی یا مجبوری؟

پی ٹی آئی قیادت کی جانب سے ان تمام سوالات کا جواب نہ دینا کئی پہلوؤں پر سوالیہ نشان لگا دیتا ہے:

کیا قیادت اپنے کارکنان کے تحفظ کو ترجیح دینے میں ناکام رہی؟

کیا پی ٹی آئی کے پاس ان الزامات کے حق میں مضبوط شواہد موجود نہیں؟

یا یہ خاموشی کسی سیاسی حکمت عملی کا حصہ ہے؟

یہ معاملہ محض سیاسی تنازع نہیں بلکہ انسانی حقوق اور جمہوری اقدار کے لیے ایک چیلنج ہے۔ عوام کو صرف بیانات کی بنیاد پر فیصلہ کرنے پر مجبور نہ کیا جائے بلکہ ایک غیر جانبدار عدالتی کمیشن تشکیل دے کر حقائق عوام کے سامنے لائے جائیں۔
حقیقت کو چھپانے کی کوئی بھی کوشش جمہوریت کے لیے نقصان دہ ہو سکتی ہے۔ یہ وقت ہے کہ قیادت اور حکومت دونوں اپنی ذمہ داری نبھائیں اور سچائی عوام کے سامنے پیش کریں۔