1 ذوالقعدة / April 29
Whatsapp Image 2024 01 21 At 5.24.03 Pm

میرپورخاص سندھ کا چوتھا بڑا شہر ہے اور ڈویژنل ہیڈکوارٹر ہے جسے آموں کا شہر بھی کہا جاتا ہے  اسکے ماتحت تین اضلاع میرپورخاص، عمرکوٹ اور مٹھی آتے ہیں۔ مٹھی شہر میرپورخاص سے تقریبا 160 کلومیٹر کے فاصلے پر آباد ہے جہاں سے قریب 140 کلومیٹر کے فاصلے پر ضلع مٹھی کی اہم تحصیل ننگرپارکر واقع ہے۔ مٹھی سے ننگر پارکر جاتے ہوئے اچانک ریگستان ختم ہو جاتا ہے اور میدانی علاقہ شروع ہو جاتا ہے جو رن کچھ اور بحیرہ عرب تک پھیلا ہوا ہے۔ اس میدانی علاقے کے کنارے کارونجھر کا پہاڑی سلسلہ شروع ہوجاتا ہے جو کہ سمندر تک چلا جاتا ہے یہیں پرتاریخی شہر ننگرپارکر آباد ہے جسے کارونجھر  نے اپنی گود میں سمیٹ رکھا ہے۔  خوبصورت رنگین گرینائٹ پتھروں پر مشتمل کارونجھر پہاڑ کا سلسلہ 29 کلومیٹر طویل اور سطح سمندر سے 305 میٹربلند ہے۔لگ بھگ ڈیڑھ لاکھ آبادی پر مشتمل ننگر پارکر کے علاقے میں ان کارونجھر پہاڑوں کی بدولت زندگی رواں دواں رہتی ہے۔ یہاں سے نکلتی بارہ سے زائد برساتی ندیاں اور چشمے سال بھر ننگر پارکر کی ڈیڑھ لاکھ سے زائد آبادی اور اتنی ہی تعداد میں ان کے مال مویشی کے لیے پانی کا واحد وسیلہ ہیں۔

Whatsapp Image 2024 01 21 At 5.24.03 Pm (1)

کارونجھر کے آس پاس زمین کافی زرخیر ہے یہاں پیاز کی خوب  فصل ہوتی ہے بارش کا پانی جمع کرنے کے لیے یہاں کئی ڈیم بھی تعمیر کیے گئے ہیں، بارش کے دنوں بالخصوص اگست میں یہاں سیاح بڑی تعداد میں آتے ہیں۔ مختلف کمپنیاں اس پہاڑی سلسلے کو کاٹ رہی ہیں جو کہ انتہائی تشویشناک ہے۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ کارونجھر کی کٹائی سے نہ صرف یہاں کی خوبصورتی، سیاحت اور ثقافت متاثر ہو گی بلکہ اس سے ماحولیاتی تباہی بھی ہو گی کیونکہ ڈیموں میں پانی انہی پہاڑوں کے ذریعے جمع ہوتا ہے۔ اسی پہاڑی سلسلہ کی وجہ سے یہ علاقہ ایک شان دارماحولیاتی نظام کا حامل ہے جو انواع و اقسام کے حیاتیاتی خزانوں سے مالا مال ہے۔

سندھ وائلڈ لائف ڈپارٹمنٹ کے مطابق اس علاقہ میں ہر قسم کے جانور پائے جاتے ہیں جن میں نیلی گائے، چنکارہ ہرن، مور، دھاری دار لکڑ بگھا، خرگوش، سرمئی تیتر ، بھٹ تیتر، راج ہنس، لال سربگلا، ماہی خور آبی پرندہ، سارس، تلور، شکرا، باز، مختلف انواع کے مہاجر پرندے شامل ہیں۔ کارونجھر کی خاص بات یہاں گِدھوں کی کئی اقسام کی موجودگی ہے۔ آئی یوسی این پاکستان کی ایک رپورٹ کے مطابق جنوبی ایشیا میں گدھوں کی 9 اقسام میں سے 8 اقسام پاکستان میں پائی جاتی ہیں، جن میں سے 6 تھرپارکر کے علاقے میں پائی جاتی ہیں۔ ان میں سے ایک نایاب لمبی چونچ والا گدھ کارونجھر کے انہی پہاڑوں میں بسیرا رکھتا ہے، پتھر کی کٹائی براہ راست اس کی نسل کے خاتمے کا سبب بن رہی ہے۔ نباتات میں سے  50 سے زائد اقسام کے درخت اور 100سے زائد جڑی بوٹیاں کارونجھر کے پہاڑی سلسلے میں پائی جاتی ہیں۔
میں جب بھی اس علاقے میں جاتا ہوں تو کارونجھر کے ماحولیاتی سحر میں کھوجاتا ہوں اور گھنٹوں اس پہاڑی سلسلے میں گھومتا رہتا ہوں۔ کارونجھر کا سحر ہر سیاح کو ایسے ہی مبہوت کر دیتا ہے۔ خدارا کارونجھر کو قتل ہونے سے بچایا جائے۔

( ایم اے راجا)