2 ذوالقعدة / April 30

اسلام آباد ہائیکورٹ کے 5 ججز کا سپریم کورٹ سے رجوع، سینیارٹی لسٹ کالعدم قرار دینے کی درخواست

اسلام آباد ہائیکورٹ کے پانچ ججز نے سینیارٹی کے معاملے پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کر دی ہے، جس میں ہائیکورٹ کی موجودہ سینیارٹی لسٹ کو کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی ہے۔

درخواست میں کیا مطالبہ کیا گیا ہے؟

درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ جسٹس سرفراز ڈوگر کو بطور قائم مقام چیف جسٹس کام کرنے سے روکا جائے اور اسلام آباد ہائیکورٹ میں ہونے والے ججز کے تبادلوں کو سینیارٹی لسٹ پر اثر انداز ہوئے بغیر عبوری طور پر برقرار رکھا جائے۔

درخواست گزار ججز کے مطابق، ہائیکورٹ میں ججز کے تبادلے عوامی مفاد میں نہیں بلکہ "کچھ اور وجوہات” کے تحت کیے گئے ہیں، جس کی وجہ سے سینیارٹی کا مسئلہ پیدا ہوا ہے۔

آئینی نکات اور اعتراضات

درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ:

  • ججز کا اسلام آباد ہائیکورٹ میں ٹرانسفر آئین کے آرٹیکل 175 اے کی خلاف ورزی ہے۔
  • صدر مملکت نے آرٹیکل 200 کی شق 1 کا استعمال کرتے ہوئے جوڈیشل کمیشن کے اختیارات میں مداخلت کی۔

درخواست گزار ججز کا کہنا ہے کہ اس معاملے میں جوڈیشل کمیشن کا اختیار سلب کیا گیا، جو کہ عدالتی آزادی کے اصولوں کے خلاف ہے۔

درخواست دائر کرنے والے ججز کون ہیں؟

سپریم کورٹ سے رجوع کرنے والے ججز میں شامل ہیں:

  • جسٹس محسن اختر کیانی
  • جسٹس طارق محمود جہانگیری
  • جسٹس بابر ستار
  • جسٹس سردار اعجاز اسحاق
  • جسٹس ثمن رفعت امتیاز

ان ججز نے اپنی درخواست میں صدر پاکستان، وفاقی حکومت، اور جوڈیشل کمیشن کو فریق بنایا ہے۔

پس منظر اور ممکنہ اثرات

یہ معاملہ پاکستان میں عدالتی سینیارٹی اور تقرریوں کے طریقہ کار پر ایک اہم بحث چھیڑ سکتا ہے۔ سینیارٹی کا مسئلہ ملک کی عدلیہ میں پہلے بھی تنازعات کا سبب بنتا رہا ہے، اور اس درخواست کے بعد عدلیہ کے اندرونی معاملات پر نئی قانونی بحث جنم لے سکتی ہے۔

کیا سپریم کورٹ اس درخواست کو فوری طور پر سماعت کے لیے منظور کرے گی؟ اور اگر ایسا ہوتا ہے تو، اس کا اسلام آباد ہائیکورٹ اور عدالتی نظام پر کیا اثر پڑے گا؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کے جوابات آنے والے دنوں میں سامنے آئیں گے۔