98
آپریشن میں ہلاک دہشتگردوں میں افغان صوبہ باغدیس کے نائب گورنر کا بیٹا بھی شامل
ڈیرہ اسماعیل خان آپریشن: ہلاک دہشت گردوں میں افغان نائب گورنر کا بیٹا بھی شامل پاکستان کے سیکیورٹی حکام کے مطابق، گزشتہ ماہ خیبر پختونخوا کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں کیے گئے ایک فوجی آپریشن میں مارے جانے والے چار دہشت گردوں میں افغانستان کے صوبہ باغدیس کے نائب گورنر کا بیٹا بھی شامل…
ڈیرہ اسماعیل خان آپریشن: ہلاک دہشت گردوں میں افغان نائب گورنر کا بیٹا بھی شامل
پاکستان کے سیکیورٹی حکام کے مطابق، گزشتہ ماہ خیبر پختونخوا کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں کیے گئے ایک فوجی آپریشن میں مارے جانے والے چار دہشت گردوں میں افغانستان کے صوبہ باغدیس کے نائب گورنر کا بیٹا بھی شامل تھا۔
ذرائع کے مطابق، 30 اور 31 جنوری کی درمیانی شب تحصیل کلاچی میں کیے گئے اس آپریشن میں ہلاک ہونے والے دہشت گردوں میں ایک کی شناخت بدر الدین عرف یوسف کے نام سے ہوئی ہے، جو افغان صوبہ باغدیس کے نائب گورنر مولوی غلام محمد احمدی کا بیٹا بتایا جا رہا ہے۔
افغان حکومت اور شدت پسندوں کے مبینہ روابط
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس انکشاف سے افغان حکومت اور شدت پسند تنظیم فتنہ الخوارج کے درمیان تعلقات پر سوالات کھڑے ہو گئے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ اس آپریشن کے بعد ایسے ناقابل تردید شواہد سامنے آئے ہیں جو ان روابط کو مزید واضح کرتے ہیں۔
پاکستانی حکام نے الزام عائد کیا ہے کہ افغانستان میں اب بھی دہشت گرد تنظیمیں متحرک ہیں اور انہیں مختلف سطحوں پر مدد فراہم کی جا رہی ہے۔ تاہم، افغان حکومت ان الزامات کو مسترد کرتی رہی ہے۔
امریکی اسلحہ اور جدید ہتھیار
پاکستانی ذرائع کے مطابق، مارے جانے والے شدت پسندوں کے قبضے سے امریکی ساختہ جدید نائٹ ویژن آلات، ایم-16 اے فور اور ایم-24 اسنائپر رائفلز برآمد ہوئی ہیں۔ ان ہتھیاروں کی موجودگی سے متعلق پاکستانی حکام نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ افغانستان میں رہ جانے والے امریکی ہتھیار اب مختلف عسکریت پسند گروہوں کے ہاتھ لگ چکے ہیں۔
لاش کی حوالگی پر افغان حکومت کا انکار
پاکستان نے افغان حکام کو مارے گئے دہشت گردوں کی لاشیں وصول کرنے کے لیے متعدد بار کہا، لیکن ذرائع کے مطابق، افغان حکومت نے انکار کر دیا ہے۔
بدر الدین کی شدت پسند تنظیموں سے وابستگی
حکام کے مطابق، بدر الدین نے پہلے افغان طالبان کے ایک تربیتی مرکز میں عسکری تربیت حاصل کی، جس کے بعد وہ فتنہ الخوارج میں شامل ہو گیا۔
تجزیہ کاروں کے مطابق، افغان طالبان کی قیادت اب بھی مختلف شدت پسند گروہوں بشمول فتنہ الخوارج کے ساتھ قریبی روابط برقرار رکھے ہوئے ہے، جس پر عالمی برادری بھی تحفظات کا اظہار کر چکی ہے۔
یہ واقعہ خطے میں سلامتی کی صورتِ حال اور دہشت گردی کے خطرات سے متعلق نئی بحث کو جنم دے سکتا ہے، جبکہ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات پر بھی اس کے ممکنہ اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔