2 ذوالقعدة / April 30

پیکا ایکٹ کی منظوری کے بعد ملک بھر میں صحافیوں کا احتجاجی مظاہرہ

پاکستان میں پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ (پیکا) ترمیمی بل کی منظوری کے بعد اسے شدید تنقید کا سامنا ہے۔ جہاں اپوزیشن نے اس قانون کو بنیادی انسانی حقوق اور آزادیِ اظہار کے خلاف قرار دیا ہے، وہیں صحافی برادری بھی اس کے خلاف سراپا احتجاج بن گئی ہے۔

کراچی میں پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (PFUJ) کا مظاہرہ

پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) کی قیادت میں پریس کلب کے باہر ایک بڑا احتجاجی مظاہرہ منعقد کیا گیا۔

احتجاج میں صحافیوں کی بڑی تعداد موجود تھی، جبکہ مختلف صحافتی تنظیموں کے نمائندے بھی اس مظاہرے میں شریک ہوئے۔

پریس کلب کے سابق صدر امتیاز خان فاران نے خطاب کرتے ہوئے کہا:

"پیکا ایکٹ کو عجلت میں منظور کیا گیا ہے، اگر یہ قانون شفاف ہے تو پھر صحافتی تنظیموں سے مشاورت کیوں نہیں کی گئی؟”

انہوں نے مزید کہا کہ یہ قانون آزادی اظہارِ رائے پر قدغن لگانے کی ایک کوشش ہے، جو کسی بھی جمہوری معاشرے میں قابل قبول نہیں ہو سکتی۔

لاہور میں بھی بھرپور احتجاج، مختلف تنظیموں کی شرکت

لاہور میں بھی پریس کلب کے باہر صحافیوں کی بڑی تعداد نے پیکا ایکٹ کے خلاف مظاہرہ کیا۔

اس احتجاج میں نہ صرف صحافتی تنظیموں کے افراد بلکہ پارلیمانی لیڈر پنجاب اسمبلی علی امتیاز وڑائچ، ڈائریکٹر نیوز ایسوسی ایشن، ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن اور پنجاب ٹیچرز ایسوسی ایشن کے نمائندے بھی شریک ہوئے، جنہوں نے اظہار یکجہتی کیا۔

احتجاجی صحافیوں نے کالے جھنڈے اٹھا رکھے تھے اور بازوؤں پر سیاہ پٹیاں باندھ کر احتجاج کیا۔ مظاہرین نے پیکا ایکٹ کو آزادیِ اظہارِ رائے کے خلاف قرار دیا اور اس کی فوری منسوخی کا مطالبہ کیا۔

اسلام آباد میں پریس کلب کے باہر احتجاجی مارچ

وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں بھی صحافی برادری کی بڑی تعداد نے پریس کلب کے باہر احتجاجی مظاہرہ کیا۔

احتجاج میں شامل صحافیوں نے پیکا ایکٹ کی منظوری کے خلاف نعرے بازی کی اور اسے میڈیا کی آزادی پر ایک سنگین حملہ قرار دیا۔

صحافیوں نے پریس کلب سے مرکزی شاہراہ تک احتجاجی مارچ بھی کیا، جس میں مظاہرین نے احتجاجی پینا فلیکس آویزاں کیے اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ اس قانون کو فوری طور پر واپس لیا جائے۔

اس احتجاج میں مختلف صحافتی تنظیموں کے سربراہان اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد بھی شریک ہوئے، جنہوں نے آزادیِ اظہار کے تحفظ کی ضرورت پر زور دیا۔

صحافیوں کا مطالبہ: پیکا ایکٹ واپس لیا جائے

ملک بھر میں ہونے والے ان احتجاجی مظاہروں کے دوران صحافی برادری نے متفقہ طور پر مطالبہ کیا کہ پیکا ایکٹ میں کی گئی ترامیم کو فوری طور پر واپس لیا جائے۔

صحافیوں کا مؤقف ہے کہ یہ قانون میڈیا کی آزادی اور عوام کے حقِ معلومات تک رسائی کے خلاف ہے، اور اس کے نفاذ سے ملک میں صحافت پر غیر ضروری پابندیاں لگ جائیں گی۔

نتیجہ

پیکا ایکٹ کی منظوری کے بعد پاکستان میں صحافیوں کی جانب سے ملک گیر احتجاج حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج بن چکا ہے۔ صحافتی برادری کا ماننا ہے کہ یہ قانون جمہوری اقدار کے منافی ہے اور اسے فوری طور پر واپس نہ لیا گیا تو احتجاج کا دائرہ مزید وسیع کیا جائے گا۔

یہ صورتحال اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ پاکستان میں آزادیِ صحافت اور اظہارِ رائے کے حقوق پر ایک نئی بحث چھڑ چکی ہے، جو آنے والے دنوں میں مزید شدت اختیار کر سکتی ہے۔