98
گھر کی بڑی اشیاء کی خریداری مردوں کی ذمہ داری سمجھی جاتی ہے: گیلپ پاکستان سروے
گھر کی بڑی اشیاء کی خریداری مردوں کی ذمہ داری سمجھی جاتی ہے پاکستان میں فرنیچر سمیت گھر کی تمام بڑی اشیاء کی خریداری کو عمومی طور پر مردوں کی ذمہ داری سمجھا جاتا ہے۔ گیلپ پاکستان کے حالیہ سروے کے مطابق، 81 فیصد پاکستانیوں نے کہا کہ گھر کی بڑی اشیاء جیسے فرنیچر، الیکٹرانکس…
گھر کی بڑی اشیاء کی خریداری مردوں کی ذمہ داری سمجھی جاتی ہے
پاکستان میں فرنیچر سمیت گھر کی تمام بڑی اشیاء کی خریداری کو عمومی طور پر مردوں کی ذمہ داری سمجھا جاتا ہے۔ گیلپ پاکستان کے حالیہ سروے کے مطابق، 81 فیصد پاکستانیوں نے کہا کہ گھر کی بڑی اشیاء جیسے فرنیچر، الیکٹرانکس اور دیگر اہم سامان کی خریداری گھر کے مرد افراد کرتے ہیں۔
دیہی اور شہری علاقوں میں رجحانات
سروے کے نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ دیہی علاقوں میں مردوں کی شمولیت نسبتاً زیادہ ہے، جہاں 83 فیصد نے اس بات کی تصدیق کی کہ بڑی اشیاء کی خریداری مرد کرتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں، شہری علاقوں میں یہ تناسب 76 فیصد رہا۔
خواتین کا کردار محدود
سروے کے مطابق، صرف 9 فیصد افراد نے کہا کہ یہ ذمہ داری خواتین ادا کرتی ہیں۔ یہ نتیجہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ پاکستان میں عمومی طور پر بڑے فیصلے اور مالی معاملات میں مردوں کا کردار غالب ہے، جبکہ خواتین کی شمولیت محدود دیکھی گئی۔
روزمرہ خریداری میں بھی مرد آگے
سروے میں روزمرہ کے سودا سلف کی خریداری کے حوالے سے بھی دلچسپ نتائج سامنے آئے۔ 79 فیصد پاکستانیوں نے کہا کہ یہ ذمہ داری بھی گھر کے مردوں پر ہی ہوتی ہے، جبکہ صرف 15 فیصد نے اسے خواتین کی ذمہ داری قرار دیا۔
معاشرتی رجحانات کا عکاس
یہ سروے پاکستان کے معاشرتی ڈھانچے اور روایتی تقسیم کار کی عکاسی کرتا ہے، جہاں گھر کے مالی اور اہم فیصلے کرنے کی ذمہ داری زیادہ تر مردوں پر ہی ہوتی ہے۔ اس کے برعکس خواتین کا کردار زیادہ تر گھریلو امور تک محدود رہتا ہے، جو صنفی مساوات کے موضوع پر سوال اٹھاتا ہے۔
نتیجہ
گیلپ پاکستان کے اس سروے نے معاشرتی رویوں اور ذمہ داریوں کی تقسیم کے حوالے سے ایک واضح تصویر پیش کی ہے۔ یہ نتائج نہ صرف موجودہ حالات کی نشاندہی کرتے ہیں بلکہ یہ سوال بھی اٹھاتے ہیں کہ مستقبل میں کیا صنفی مساوات کی جانب کوئی عملی قدم اٹھایا جا سکتا ہے؟