98
پیکا ترمیمی بل 2025 کے اہم نکات منظر عام پر آگئے
پیکا ترمیمی بل 2025: متنازع ترامیم پر تنقید اور اہم نکات اسلام آباد: پاکستان کی قومی اسمبلی نے الیکٹرانک جرائم کی روک تھام کے ایکٹ (پیکا) 2025 میں متنازع ترامیم کا بل منظور کر لیا ہے، جس کے تحت سائبر کرائمز کی تحقیقات اور سوشل میڈیا ریگولیشن کے حوالے سے کئی نئے اختیارات اور ادارے…
پیکا ترمیمی بل 2025: متنازع ترامیم پر تنقید اور اہم نکات
اسلام آباد: پاکستان کی قومی اسمبلی نے الیکٹرانک جرائم کی روک تھام کے ایکٹ (پیکا) 2025 میں متنازع ترامیم کا بل منظور کر لیا ہے، جس کے تحت سائبر کرائمز کی تحقیقات اور سوشل میڈیا ریگولیشن کے حوالے سے کئی نئے اختیارات اور ادارے متعارف کروائے گئے ہیں۔
بل کے اہم نکات
- نئی تحقیقاتی ایجنسی کا قیام
ترمیمی بل کے تحت وفاقی حکومت ایک نئی قومی سائبر کرائم تحقیقاتی ایجنسی قائم کرے گی، جو سوشل میڈیا پر غیر قانونی سرگرمیوں کی تحقیقات کرے گی۔ اس ایجنسی کا سربراہ ڈائریکٹر جنرل ہو گا، جس کی تعیناتی تین سال کے لیے کی جائے گی۔ - ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کا خاتمہ
بل کے مطابق نئی تحقیقاتی ایجنسی کے قیام کے ساتھ ہی ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ کو تحلیل کر دیا جائے گا۔ - فیک نیوز پر سخت کارروائی
بل میں یہ تجویز دی گئی ہے کہ سوشل میڈیا پر جھوٹی خبریں پھیلانے والوں کو تین سال قید یا 20 لاکھ روپے جرمانہ کیا جا سکتا ہے۔ - سوشل میڈیا ریگولیشن اتھارٹی
ترمیمی بل کے تحت ایک نئی سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی قائم کی جائے گی، جو سوشل میڈیا صارفین کے تحفظ، پلیٹ فارمز کی رجسٹریشن، ان کے معیارات کو یقینی بنانے اور غیر قانونی مواد کو ہٹانے کے اختیارات رکھے گی۔ - 24 گھنٹوں میں درخواست دینے کی پابندی
سوشل میڈیا پر غیر قانونی سرگرمیوں کے خلاف شکایات درج کرانے والے افراد کو متعلقہ اتھارٹی میں 24 گھنٹوں کے اندر درخواست جمع کرانا ہو گی۔
کراچی پریس کلب کا ردعمل
پیکا ترمیمی بل 2025 کی منظوری کے بعد کراچی پریس کلب (کے پی سی) نے اس کی شدید مذمت کی ہے۔
کے پی سی کے صدر فضل جمیلی اور سیکرٹری سہیل ازل خان نے ان ترامیم کو آزادی اظہار رائے کے لیے ایک بڑا خطرہ قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 19 کے تحت ہر شہری کو آزادی اظہار رائے کا حق حاصل ہے، اور یہ ترامیم اس حق کو محدود کرنے کی کوشش ہیں۔
کے پی سی نے ان ترامیم کو "کالا قانون” قرار دیتے ہوئے حکومت سے فوری طور پر اسے واپس لینے کا مطالبہ کیا۔
تجویز کردہ اقدامات
کراچی پریس کلب نے حکومت کو مشورہ دیا کہ جعلی خبروں کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے سوشل میڈیا کو کنٹرول کرنے کے بجائے مرکزی دھارے کے میڈیا کو بااختیار بنایا جائے تاکہ عوام کو بروقت اور درست معلومات فراہم کی جا سکیں۔
سول سوسائٹی اور میڈیا کے تحفظات
سول سوسائٹی اور میڈیا تنظیموں نے اس بل کو حکومت کی جانب سے آزادی اظہار پر پابندی لگانے کی ایک کوشش قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت کو قانون سازی کے عمل میں تمام اسٹیک ہولڈرز بشمول میڈیا اور سول سوسائٹی کو شامل کرنا چاہیے تاکہ متفقہ اور منصفانہ قانون بنایا جا سکے۔
ممکنہ اثرات
بل کی منظوری کے بعد پاکستان میں سوشل میڈیا اور آن لائن آزادی پر مزید پابندیوں کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ ترامیم حکومت کو غیر معمولی اختیارات فراہم کرتی ہیں، جو شہری آزادیوں کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہیں۔
یہ متنازع قانون سازی نہ صرف قومی بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی پاکستان کے آزادی اظہار اور انسانی حقوق کے حوالے سے موقف پر سوالات اٹھا سکتی ہے۔