2 ذوالقعدة / April 30

عمر ایوب، جو قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر ہیں، نے چیئرمین قومی اسمبلی قائمہ کمیٹی برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی کو ایک خط لکھا ہے جس میں ڈیجیٹل نیشن پاکستان ایکٹ پر شدید تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس قانون سازی کے ذریعے شہریوں کی آزادیوں اور پرائیویسی کو نقصان پہنچایا جا سکتا ہے۔

ڈیٹا تحفظ کے حوالے سے خدشات

خط میں واضح کیا گیا کہ ڈیٹا تحفظ کا قانون نہایت ضروری ہے اور اس کے بغیر کسی بھی نئے ڈیجیٹل قانون کو نافذ نہیں کیا جانا چاہیے۔ عمر ایوب کے مطابق، اس وقت پاکستان کی 56 فیصد آبادی انٹرنیٹ تک رسائی نہیں رکھتی، اور ڈیجیٹل نیشن پاکستان ایکٹ انٹرنیٹ سے محروم افراد کے لیے مزید رکاوٹیں پیدا کرے گا۔

انہوں نے سوال اٹھایا کہ ڈیجیٹل ڈیٹا کو محفوظ رکھنے کی ذمہ داری کس کی ہوگی اور اسے کیسے محفوظ رکھا جائے گا؟ ان کے مطابق، ڈیٹا پروٹیکشن کے بغیر شہریوں کا ڈیٹا غلط استعمال کا شکار ہو سکتا ہے۔

شہری آزادیوں پر قدغن کا خدشہ

عمر ایوب کا کہنا ہے کہ ڈیجیٹل نیشن پاکستان ایکٹ کے تحت بنائے جانے والے ادارے، یعنی پاکستان ڈیجیٹل کمیشن اور ڈیجیٹل اتھارٹی، شہری آزادیوں کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال ہو سکتے ہیں۔ ان کے مطابق، اس قانون کے ذریعے:

  • شہریوں کے ڈیٹا کو ان کے خلاف جھوٹے فوجداری مقدمات بنانے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
  • الیکٹرانک فٹ پرنٹس کو مانیٹر کر کے آزادی صحافت کو محدود کیا جا سکتا ہے۔
  • انٹرنیٹ کی بندش یا اسپیڈ کو جان بوجھ کر سست کر کے شہریوں کو ہدف بنایا جا سکتا ہے۔

غیر سویلین اہلکاروں کی تعیناتی پر اعتراض

خط میں یہ نکتہ بھی اٹھایا گیا ہے کہ آئی ٹی سے متعلق اداروں میں غیر سویلین اہلکاروں کی تعیناتی شہریوں کی پرائیویسی کے لیے خطرہ ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ یہ اہلکار آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے رازداری کے قوانین کی پامالی کر سکتے ہیں۔

میرٹ کی بنیاد پر تعیناتی کی سفارش

عمر ایوب نے یہ تجویز دی کہ ڈیجیٹل کمیشن اور دیگر متعلقہ اداروں میں تمام تعیناتیاں میرٹ کی بنیاد پر کی جانی چاہییں تاکہ عوام کے حقوق کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے۔ انہوں نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ نئے قانون کے تحت اختیارات کا دائرہ محدود ہونا چاہیے تاکہ کسی قسم کے غلط استعمال کو روکا جا سکے۔

ڈیجیٹل تقسیم میں اضافے کا اندیشہ

انہوں نے خبردار کیا کہ ڈیجیٹل نیشن پاکستان ایکٹ، ملک میں پہلے سے موجود ڈیجیٹل تقسیم کو مزید بڑھا سکتا ہے اور معصوم شہریوں کی آزادیوں کو مزید محدود کر سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ قانون شہریوں کی زندگیوں پر منفی اثر ڈالے گا اور ان کے حقوق کے تحفظ میں ناکام ثابت ہوگا۔

حتمی درخواست

عمر ایوب نے اپنے خط کے ذریعے مطالبہ کیا کہ ڈیجیٹل نیشن پاکستان ایکٹ کو اس وقت تک پاس نہ کیا جائے جب تک کہ ڈیٹا تحفظ کا جامع قانون نافذ نہ کر دیا جائے۔ ان کا مؤقف ہے کہ شہری آزادیوں اور بنیادی حقوق کی حفاظت کے لیے اس قانون سازی پر مزید غور و خوض کی ضرورت ہے۔

یہ خط ڈیجیٹل حقوق، شہری آزادیوں اور رازداری کے تحفظ کے حوالے سے ایک اہم بحث کو جنم دے سکتا ہے، جو پاکستان میں تیزی سے ڈیجیٹلائز ہوتی معیشت کے تناظر میں نہایت اہمیت اختیار کر چکی ہے۔